نصیحت سے لبریز باتیں
از قلم:ابوالعطر محمد عبدالسلام امجدی برکاتی(متھلا بہاری نگر پالیکا،تاراپٹی،دھنوشا،نیپال)
دنیااور اس کی عیش و عشرت، رنگ برنگیاں ، یہ بلند و بالا خوبصورت بنگلے ، دولت و ثروت سب فانی ہیں ۔ جو لوگ ان چیزوں سے لطف اندوز ہونے میں مصروف ہیں ، موت اور آخرت سے غافل ،رب کے حضور کھڑے ہونے اور حساب و کتاب کے دن سے بے پرواہ ہیں وہ خسارے میں ہیں ۔انہیں اس غفلت و بے حسی کا احساس اس وقت ہو گا جب میدان محشر خالی ہاتھ اور گنا ہوں سے آلودہ دامن کے ساتھ رب کے حضور کھڑے ہو ں گے ، جس دن نہ ہی کوئی دوست اور نہ ہی کوئی یارو مدد گار ہوگا جو یاوری کے لئے آگے آئے گا۔حسرت و افسوس سے یہ تمنائیں کریں گے کہ کاش ہم نے دنیا میں نیک اعمال کئے ہوتا ، خدا وندقدوس کی پرستش و بندگی کی ہوتی ، اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی ، رسول اللہ ﷺ کے جاں نثار صحابہ کرام اور ائمہ مجتہدین کی اقتدا کی ہوتی ، قران مجید کی تلاوت کی ہوتی ، صدقات و خیرات کئے ہوتے ، اسلام اور اس کے اصول و ضوابط کو سینے سے لگائے ہوتے توآج اس ندامت و شرمندگی اور تکلیف دہ عذاب سے دو چار نہیں ہونا پڑتا ۔ مگر اب حسرت و افسوس اور یہ تمنائیں بے کا ر ثابت ہوںگی ۔ اس لئے ابھی وقت ہے ہم اپنے دامن نیکیوں سے بھر سکتے ہیں ، اپنی عاقبت بہتر بنانے کی سعی کر سکتے ہیں ۔جو موقع ہمیں ابھی اللہ رب العزت کی طرف سے ملا اسے غنیمت جاننا چاہئے اور موت سے پہلے یہ ضروری ہے کہ آخرت کی بھلائی کے لیئے خود کو زیور ایمان و صالح اعمال سے آراستہ کر لیں۔دنیا کی آرائش و زیبائش اور فانی لطف و لذت کے دام فریب میں نہ پڑیں۔
پانچ نعمتوں کی قدر و قیمت:
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’’ پانچ کو پانچ سے پہلے غنیمت جانو:
(۱) بڑ ھاپے سے پہلے جو انی کو
(۲) بیماری سے پہلے تندرستی کو
(۳) محتاجی سے پہلے تونگری کو
(۴) مصروفیت سے پہلے فراغت کو اور
(۵) موت سے پہلے زندگی کو‘‘ ۔ (ترمذی ج۲ص۲۵کتاب الزھد)
نیز داعی حق عزوجل پیارے آقا ﷺ فرماتے ہیں ’’ دنیا اس کا گھر ہے جس کا کوئی گھر نہیں ،اور اسی کا مال ہے جس کے پاس مال نہیں ہوتا ۔ اور جس کے پاس عقل و فہم نہیں ہوتی وہی اس کی خاطر ذخیرہ اندوزی کرتا ہے ۔ اس کے لئے آپس میں وہی عداوت کرتا ہے جو بے علم ہوتا ہے ،جس کے پاس سمجھ بوجھ نہیں ہوتی وہی اس پر حسد کرتا ہے اور وہی شخص اس کی کوشش کرتا ہے جس کو اس کا یقین نہ ہو ۔(احمد بن حنبل ج۶ص۷۱)
حضرت مالک بن دینار رحمہ اللہ الباری فرماتے ہیں کہ دنیا کی محبت دل سے ایمان کی چاشنی کو نکال دیتی ہے ۔(تنبیہ المغترین ص۲۳۲)
اور حضرت یحیٰ بن معاذ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دنیا شیطان لعین کی دکان ہے لہٰذا اس کی دکان سے کچھ مت چراؤ کہیں ایسا نہ ہوکہ وہ تیری تلاش میں آئے اور تجھے پکڑ لے ۔
(تنبیہ المغترین ص۲۳۲)
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’’دنیا کا فروں کے لئے جنت اور مومنوں کے لئے قید خانہ ہے ‘‘۔(مسلم، مشکوٰۃ)
لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ کفا رو مشرکین کی عیش و مستی پر رشک نہ کریں بلکہ اپنے خالق و مالک کی اطاعت و رضا جوئی میں رہیں اور ا س انعام و اکرام اور باقی رہنے والی نعمتوں کی فکر میں رہیں جن کا و عدہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کیا ہے ۔
حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو جنت کا خواہشمند ہو اس کو چاہئے کہ نیکیوں کی طرف سبقت کرے ، جس کو آتش جہنم کا خوف ہو ا س کو چاہئے کہ شہوتوں سے دور رہے اور جو موت سے ڈرتا ہو اسے دنیاوی لذتوں سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہئے اور دنیا سے جو شخص رغبت نہیں رکھتا ہے اس کے لئے مصائب کچھ نہیں ہیں ۔ (تنبیہ الغافلین ص۱۵۱)
جنتی اور دوزخی سے اللہ تعالیٰ کا خطاب:
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ جب اللہ تعالیٰ جنتیوں کو جنت میں اور دوزخیوں کو دوزخ میں داخل کر دے گا تو فرمائے گا اے جنتیو! تم دنیا میں کتنے سال ٹھرے ؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ٹھرے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا پھر تو تم بہت اچھے رہے ۔ تم نے ایک آدھ دن میں میری رحمت ، میری رضا اور جنت کو حاصل کر لئے ، اب اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہو ۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے دوزخیو! تم دنیا میں کتنا عرصہ ٹھرے ؟ وہ کہیں گے ایک آدھ دن ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تم بہت برے لوگ ہو ، تم نے ایک آدھ دن میں مجھے ناراض کرکے جہنم خرید لیا اب اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہو‘‘۔(در منثور ج ۶ ص۱۲۱، اسد الغابہ ج۱ ص ۱۸۷)
حضرت عمر بن عبدالعزیز کی نصیحتیں:
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے آخری خطبہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا اے لوگو! تمہیں فضول اور عبث نہیں پیدا کیا گیا اور نہ تمہیں یونہی بے مقصد چھوڑا گیا ، تمہارے لئے ایک وعدے کا دن مقرر ہے ، جس میں اللہ تعالیٰ بذات خود فیصلے کرنے اور حکم فرمانے کے لئے نازل ہوگا ۔ وہ بندہ بے مراد ، ناکام اور بد بخت ہو ا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے دور کردیا اور ایسی جنت سے محروم کردیا جس کا عرض آسمانوں اور زمین کی مثل ہے ۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ کل وہی عذاب سے محفوظ رہے گا ، جو آج اس دن سے ڈرا ، فانی کو باقی پر، قلیل کو کثیر پر اور خوف کو امان پر قربان کردیا ۔ کیا تم ملاحظہ نہیں کرتے کہ تم ہلاک ہونے والوں کے صلبوں میں ہو ۔ اسی طرح تمہارے مرنے کے بعد اور تمہاری جگہ لے لیں گے ، یہاں تک کہ وہ وقت آجائے گا جب تم سب خیر الوارثین کی طرف لوٹ جاؤ گے ۔ پھر تم ہر روز صبح وشام اللہ تعالیٰ کی طرف جانے والے کے جنازے میں شریک ہوتے ہو جو وفات پا گیا اور اپنے مقررہ وقت کو پہونچ گیا ۔ تم اسے زمین کے ایک گڑھے میں دفن کرکے بغیر تکئے اور بستر کے چھوڑ دیتے ہو ۔ یہ دوستوں سے جدا ہو گیا اور مٹی کے ساتھ مل گیا اور حساب و کتاب کا سامنا کیا اب یہ اپنے عمل کے ساتھ پا بند ہے ۔ اس چیز سے بے نیاز ہے جو اس نے چھوڑی اور اس چیز کا محتاج ہے جو اس نے آگے بھیجی ۔ اس لئے اللہ کے بندو! عہد و پیمان ختم ہو جانے اور موت کے آنے سے پہلے اللہ سے ڈرو ۔ پھر آپ چادر کے ایک کنارے کو منہ پر رکھ کر رونے لگے اور سب حاضرین بھی رودئے ۔( ابن کثیر ج ۵ ص ۵۰۱)
قیامت کا منظراوردوزخ کا عذاب:
جو لوگ کفر و شرک کرتے ہیں ،فسق و فجور اور بد عملیوں میں اپنے شب و روز گزار رہے ہیں ،شریعت کے احکام کو چھوڑ کر شریعت کے منع کردہ اور حرام کردہ کاموں میں مبتلاء ہیں وہی قیامت کی ہو لنا کیو ں اور دوزخ کے سخت سے سخت عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے ،جس عذاب کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہﷺ نے فرمایا:
’’ جب قیامت کا دن ہو گا اور اس یقینی دن میں سب مخلوق ایک میدان میں اکٹھا ہو گی تو ایک کالا سائبان ان پر چھا جائے گا ،وہ اتنا کالا ہوگا کہ لوگ ایک دوسرے کو دیکھ نہ سکیں گے ۔سب لوگ اپنے اپنے پیروں پر کھڑے ہوں گے ،ان کے اور اللہ تعا لیٰ کے درمیا ن کا فاصلہ ستر سال کی مسافت ہوگا۔ لوگ اسی حالت میں ہوں گے کہ اچانک اللہ تبارک و تعالیٰ فرشتوں پر تجلی فرمائے گا ۔اس وقت اللہ تعالیٰ کے نور سے تمام تاریکی دور ہو جائے گی ،وہ نور تمام مخلوق کا احاطہ کر لے گا ۔فرشتے اپنے رب کی تسبیح و تحمید میں عرش کے گرد ا گرد طواف میں مشغول ہو جائیں گے ۔حضور ﷺنے فرما یا کہ اس اثنا میں تمام مخلوق صف بستہ کھڑے ہوگی ۔ہر امت ایک( مخصوص) جگہ میں ہوگی ،اسی وقت صحیفے اور میزان لائی جائے گی ۔یہ میزان ایک فرشتہ کے ہاتھ پر معلق ہوگا اور کبھی ایک پلڑے کو اٹھا ئے گا اور کبھی جھکا دے گا ۔اعمال نامے اس میں رکھے جائیں گے ۔ اسی حالت میں جنت کاپردہ اٹھا یا جائے گا اور پھر جنت قریب لائی جائے گی ،پھر بھی اس کا فاصلہ اہل ایمان سے پانچ سو برس کی راہ ہو گا ۔ جنت سے ایک ہوا چلے گی جس کی خوشبو ایمان والے مشک کی طرح محسوس کریں گے ۔
پھر دوزخ کے اوپر سے پردہ اٹھایا جائے گا ،دوزخ کی بدبو دار ہو ااس کے دھو ئیں سے آلودہ ہوگی ،مجرم اس کی بدبو محسوس کریں گے حالانکہ ان کے اور دوزخ کے درمیان پانچ سو برس کی راہ کا فاصلہ ہو گا ۔پھر دوزخ کو بڑی بڑی زنجیروں سے کھینچ کر (قریب)لا یا جائے گا ،اس پر انیس (اور ایک روایت میں ستر ہزار)فرشتے مؤکل ہوںگے ،ہر مؤکل کے مددگار ستر ہزار فرشتے ہوں گے ،تمام مؤکل اور ان کے مددگار فرشتے دوزخ کے دائیں بائیں اور پیچھے چلتے ہوئے اس کو گھیرے میں لئے ہوئے کھینچ کر لائیں گے ۔ ہر فرشتے کے ہاتھ میں لوہے کا گرز ہو گا ،جس کی ضرب سے دوزخ چینخ اٹھے گا ۔دوزخ کی آوازیں گدھے کی پہلی اور آخری آواز کی طرح انتہائی ناپسند ہوںگی۔ دوزخ میں مصیبتیں ہوں گی ، تاریکی ہوگی ،بدبو دار دھواں ہو گا اور شور ہوگا ۔ دوزخ دوزخیوں پر غضبناک ہوگا اور شدت غضب کے باعث اس سے شعلے اٹھیں گے۔فرشتے دوزخ کو کھینچتے ہوئے جنت اور محشر کے درمیا ن نصب کر دیں گے ۔ اس وقت آنکھ اٹھا کر ساری مخلوق کو دیکھے گا پھر ان پر حملہ آور ہوگا تاکہ سب مو منوں اور دوزخیوں کو نگل لے ۔ مگر داروغہ دوزخ (مالک) اور اس پر مامور فرشتے اس کو زنجیروں سے روکے رکھیں گے ۔ دوزخ جب دیکھے گا کہ اس کو باند ھ لیا گیا تو اس میں سخت جوش آئے گا اور غضب کی شدت کی وجہ سے قریب ہوگا کہ وہ پھٹ جائے۔پھر وہ دوبارہ دھاڑے گا ،تمام مخلوق اس کے دانت پیسنے کی آواز سنے گی ،مخلوق کے دل دہل جائیں گے اور دھڑک سینوں سے نکلیں گے ،لوگوں کے ہوش اڑ جائیں گے ، آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیںگی اور دل سینوں سے تڑپ کرحلق تک آجائیں گے ۔(غنیۃالطالبین )
یہ ہے قیامت اور عذاب دوزخ کی ہولناکیوں کا مختصر بیان جس کےمستحقین کفار ومشرکین ہمیشہ اور فساق و فجور اور ہر مرتکب کبائر مسلمان ایک مدت معلومہ تک ہوں گے ، مگر معلوم نہیں اس معینہ مدت کی مقدارکیا ہوگی اس کا علم تو اللہ تعالیٰ کو ہی ہے ۔ اللہ ہمیں اپنی پناہ میں رکھے۔اس لئے ہمیں اور تمام مسلمان بھائیوں کو چاہئے کہ اللہ رب العزت کی عبادت و بندگی کریں ، اس کا ذکر ، تسبیح و تہلیل ، تکبیر و تقدیس کریں ، اللہ عز وجل اور اس کے پیارے رسول مکر م ﷺ کی اطاعت و اتباع اور فرماں برداری کریں ، برے اعمال مثلا جھوٹ ، غیبت ، چغلی ، رشوت ، زنا ، چوری ، حسد ، کینہ ، بغض ، عداوت ، بہتان یتیموں کی حق تلفی ، پڑوسیوں کی دل آزاری ، والدین کی نا فرنانی ، ظلم و ستم اور لہو و لعب سے بچیں اور احکام شریعت پر عمل کریں۔
رسول اللہ ﷺ کا خواب اور دوزخیوں کے احوال:
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیا کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز پڑھتے تو چہرئہ انور ہماری طرف کرکے فرماتے ـــــــــــــ’’ آ ج رات تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے ؟ تو اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا اسے بیان کرتا اور آپ ﷺ وہ فرماتے جو اللہ تعالیٰ چا ہتا۔ چنانچہ اسی طرح آپ نے ہم سے پو چھا ،ہم نے عرض کی نہیں! تو آپ ﷺ نے فرمایا ’’ آج رات میں نے دو افراد کو دیکھا جو میرے پاس آئے اور مجھے مقدس زمین کی طرف لے گئے ،میں نے دیکھا:
(۱)ایک شخص بیٹھا ہے اور ایک شخص ہاتھ میں لوہے کا زنبور لئے کھڑا ہے جس سے اس کا جبڑا چیر تا ہے یہاں تک کہ اس کی گدی تک چیر دیتا ہے ،پھر اس کا دوسرا جبڑا چیر تا ہے ،اتنی دیر میں پہلا جبڑا ٹھیک ہو جاتا ہے ،اس طرح وہ مسلسل دونوں جبڑوںکو چیر تا رہتا ہے ،میں نے کہا یہ کیا ہے؟وہ بولے چلئے۔
(۲) پھر ہم ایسے شخص پر پہنچے جو پیٹھ کے بل لیٹا ہے اور ایک شخص پتھر سے اس کا سر کچل رہا ہے ،وہ جب اسے مارتا ہے تو پتھر لڑھک جا تا ہے ،جب وہ پتھر لینے جاتا ہے تو اس کے آنے تک اس کا سر پہلے کی طرح ٹھیک ہو جا تا ہے ،اور وہ پھر پتھر ا س کے سر پر مار تاہے ۔میں نے کہا یہ کیا ہے ؟وہ بولے چلئے۔
(۳)پھر ہم ایک سوراخ تک پہنچے جو تنور کی طرح اوپر سے تنگ اور اندر سے کشادہ تھا، اس میں جب آگ بھڑکتی تو کچھ لوگ آگ کے شعلوں پر اوپر آجاتے یہاں تک کہ تنور کے منہ تک پہنچ جاتے ۔پھر آگ جب نیچے ہوتی تو وہ بھی نیچے چلے جاتے ،یہ ننگے مرد اور عورتیں تھیں میں نے کہا یہ کیا ہے ؟وہ بولے چلئے ۔
(۴)پھر ہم ایک خون کی نہر پر پہنچے جس کے کنارے ایک آدمی بہت سے پتھر لئے کھڑا ہے اور ایک آدمی نہر کے بیچ میں ہے ،وہ جب نکلنے کی کو شش کرتا تو یہ شخص اس کے منہ پر پتھر مارتا تو وہ پھر واپس لوٹ جاتا ۔میں نے کہا یہ کیا ہے؟وہ بولے چلئے۔
(۵)پھرہم ایک سبز باغ تک پہنچے جس میں ایک بہت بڑا درخت تھا جس کی جڑ میں ایک بوڑھا بزرگ اور کچھ بچے تھے ۔ایک شخص درخت کے قریب آگ روشن کر رہا تھا ۔ وہ مجھے درخت تک لے گئے اور مجھے اس گھر میں داخل کیا جو درخت کے نیچے تھا ، اس سے اچھا مکان میں نے کبھی نہیں دیکھا ۔اس میں کچھ بوڑھے ، جوان ،عورتیں اور بچے تھے ۔
(۶)پھر وہ مجھے وہاں سے لے گئے اور درخت کی جڑ کے پاس ایسے گھر میں داخل کئے جو پہلے والے گھر سے بھی اچھا اور بہتر تھا، اس میں بوڑھے اور جوان تھے ۔
میں نے ان دونوں افراد سے کہا ’’ تم نے مجھے آج رات جو کچھ دکھا یا اس کے بارے میں بتاؤ؟انہوں نے جواب دیا:
(۱) وہ شخص جسے آپ نے دیکھا کہ اس کا جبڑا چیرا جا رہا ہے یہ وہ جھو ٹا ہے جو جھوٹی باتیں ہر جگہ پھیلا تا ہے۔ اسے یہ عذاب قیامت تک ہوتا رہے گا ۔
(۲)اور جس شخص کو آپ نے دیکھا کہ اس کا سر کچلا جارہا ہے یہ وہ شخص ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن سکھا یا اور وہ ہر رات غفلت کی نیند سویا اور دن میں اس کے احکام پر عمل نہ کیا ،اسے یہ عذاب قیامت تک ہوتا رہے گا ۔
(۳)اور جن لوگوں کو آپ نے آگ کے تنور میں دیکھاوہ بدکار لوگ ہیں ۔
(۴)اور جسے آپ نے خون کی نہر میں دیکھا وہ سود خور ہے ۔
(۵)اور وہ بوڑھے بزرگ جنہیں آپ نے درخت کی جڑ میں دیکھا حضرت ا براہیم علیہ السلام ہیں اور ان کے ارد گرد والے بچے لوگوں کی (بچپن میں فوت شدہ )اولاد ہیں اور وہ جو آگ جلا رہے تھے دوزخ کے داروغہ مالک ہیں ۔
(۶)اور پہلا گھر جس میں آپ گئے وہ عام جنتی مسلمانوں کا گھر اور یہ گھر شہیدوں کا گھر ہے ، میں جبرئیل ہوں اور یہ میکائیل ہیں ۔(بخاری ج۱ص۱۸۵)
اس حدیث مبار ک میں اجما لََا ان اعمال کا ذکر ہے جن کے سبب انسان عقاب و عتاب کا مستحق ہوتا ہے جن کی تفصیل ان شا ء اللہ ہم آیا ت و احادیث کی روشنی میں بیان کریں گے۔لیکن سر دست اس حدیث سے ان لوگوں کو عبرت پکڑنی چاہئے جو برے کاموں اور گناہوں کے دلدل میں پڑے ہوئے ہیں ،اب تو ان کی نگاہوں سے پردہ اٹھ جا نا چا ہئے اور برے اعمال سے تو بہ کرکے اپنی بہتر عاقبت کے لئے کمر بستہ ہو جا نا چاہئے اور وہی کریں جس میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی رضا و خو شنو دی ہو۔
کافر کی حالت قبر میں:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب کافر کو اس کی قبر میں رکھا جاتا ہے وہ اپنا جہنم کا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے توکہتا ہے میرے رب مجھے واپس لوٹا دے میں توبہ کر لوں گا اور نیک اعمال بجا لاؤں گا ۔ اسے جواب ملتا ہے کہ جس قدر عمر تیرے لئے مقدر تھی وہ تو گذار چکا ۔ پھر اس کی قبر تنگ ہو کر اس پر مل جاتی ہے اور اس کی حالت سانپ کے کاٹے ہوئے شخص کی سی ہوتی ہے اورکیڑے مکوڑے، سانپ اور بچھو اس پر چڑھ دوڑتے ہیں۔( درمنثور ج ۶ ص ۱۱۴)
کسی دانا کا قول ہے کہ وعظ کے ساتھ اپنے دل کو زندہ کرو ، تفکر کے ساتھ اسے منور کرو ، زہد کے ساتھ اسے مار دو ، یقین کے ساتھ قوی بناؤ ، موت کے ساتھ اسے ذلیل کرو ، فنا کے ذریعہ اسے مستعد رکھو ، دنیاوی مصائب و آلام سے اس کی آنکھیں کھول دو ، زمانہ کے دست برد سے اسے مشتبہ کرو ، گردش زمانہ کا خوف دلاتے رہو ، گذشتہ واقعات سے اسے عبرت دلاتے رہو ، اور گذشتہ اقوام کے عبرت ناک انجام کا تذکرہ اس سے کرتے رہو۔(ابن کثیر ج ۵ ص ۴۳۸)
(گناہوں کا انجام)
This website uses cookies.