احادیث

توبہ و مغفرت کی امید پر گناہ نہ کریں

توبہ و مغفرت کی امید پر گناہ نہ کریں

ابوالعطرمحمد عبدالسلام امجدی برکاتی 

وَ ذَرُوْا ظَاهِرَ الْاِثْمِ وَ بَاطِنَهٗ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْسِبُوْنَ الْاِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا كَانُوْا یَقْتَرِفُوْنَ (الا نعام ۱۲۰)
ترجمہ: اور چھوڑ دو ظاہری گنا ہ کو اور چھپے ہوئے کو بیشک جو کماتے ہیں گناہ جلدی ہی سزا دی جائے گی انہیں جس کا وہ ارتکاب کیا کرتے تھے۔
حضرت مجاہد رضی اللہ تعا لیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ خفیہ اور اعلانیہ گناہ ترک کردو ۔ نیز آپ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد وہ گناہ ہے جس کے کرنے کی اس نے نیت کی ہو۔
(تفسیر طبری ص۱۴)
حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرما تے ہیں کہ اس سے مخفی اور اعلانیہ اور قلیل و کثیر گناہ مراد ہے۔حضرت سدی رحمہ اللہ الباری فرماتے ہیں کہ ظاہری گناہ سے مراد ان رنڈیوں اور فاحشہ عورتوں سے زنا کرنا ہے جنہوں نے بطور علامت اپنے گھروں کے اوپر جھنڈے لگا رکھے تھے ۔اور باطنی گناہ سے ان عورتوں کے ساتھ چوری چھپکے زنا کرنا ہے جن کے ساتھ خفیہ تعلقات ہوں ۔صحیح یہ ہے کہ یہ آیت عام ہے ،ساری تو ضیحات اس میں شامل ہیں ۔کسی کی تخصیص نہیں خواہ ظاہری گناہ ہو یا باطنی ان سب کا بد لہ ملے گا ۔ (تفسیر ابن کثیر)
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ہر طرح کے گناہ کو چھوڑنے کا حکم دیا ہے اور ارشاد فرمایا کہ جن کاموں سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے تو جو شخص وہ کام کرے گا اور گناہوں کا ارتکاب کرے گا تو اللہ تعالیٰ ان برے کاموں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے روز قیامت میں سزا دی جائے گی۔تو بندئہ مومن کو چاہئے کہ چھوٹے ، بڑے،اعلانیہ اور پوشیدہ ہر طرح کے گناہوں سے باز رہیں اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اپنی زندگی گذارے اور جو گناہ کرلئے ہیں ان گناہوں سے سچی توبہ کرلے کہ اس آیت مبارکہ میں توبہ کرنے کی ترغیب بھی دی جارہی ہے اور گناہ کے کام سے بچنے کا حکم و نصیحت بھی۔مگر افسوس کہ کچھ لوگ اس امید پر گناہوں ملوث رہتے ہیں کہ توبہ کا دروازہ تو کھلا ہوا ہے ،گناہ کرکے توبہ کرلیں گے۔جو لوگ ایسی فکر اپنے ذہن و دماغ میں پالے ہوئے ہیں اور توبہ کی امید پر گناہ کرتے رہتے ہیں وہ لوگ سخت نادانی میں مبتلا ہیں۔
علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
’’بے شک سب گناہ گار مشیت کے خطرے میں ہیں بلکہ اطاعت گزار بھی نہیں جانتے کہ ان کا خاتمہ کیساہو گا تواے گناہگارو! تم دھوکے میں مت رہنا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عنایت ہر گناہگار کو حاصل نہ ہو گی اور نہ ہی تمہیں یہ معلوم ہے کہ تم ان لوگوں میں سے ہو جنہیں معاف کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے۔
(روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ: ۱۲۰، ۳ / ۹۴بحوالہ تفسیر صراط الجنان)
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
’’جو انسان یہ آس لگائے بیٹھا ہے کہ میں مومن ہوں اور اللہ تعالیٰ مومنوں کے گناہ معاف کر دے گا تواسے یہ تصور کرنا چاہئے کہ شاید اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف نہ کرے اور یہ بھی ممکن ہے کہ جب انسان اطاعت نہ کرے تو ا س کا ایمانی درخت کمزو ر و ناتواں ہو جائے اور نزع کے وقت موت کی سختیوں کے تند جھونکوں سے اکھڑ جائے کیونکہ ایمان ایک ایسا درخت ہے جس کی پرورش عبادت کے پانی سے ہوتی ہے اور جب اسے یہ پانی نہ ملا اور ا س نے قوت نہ پکڑی تو اس کے اکھڑ جانے کے خطرات ہر وقت ا س پر منڈلاتے رہیں گے۔ اگر وہ اپناایمان سلامت لے گیا تو یہ بھی امکان ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے بخش دے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اسے عذاب میں مبتلاء کر دے ، لہٰذا اس آسرے میں بیٹھے رہنا کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے گا بہت بڑی حماقت ہے اور اِس شخص کی مثال اُس آدمی کی طرح ہے جو اپنے مال و اسباب کو تباہ کر کے اور بال بچوں کو بھوکا چھوڑ کر یہ خیال کرے کہ شاید ویرانے میں خزانہ مل جائے یا اِس شخص کی مثال اُس آدمی کی طرح ہے جو کسی ایسے شہر میں رہ رہا ہو جسے لوٹا جا رہا ہو اور وہ اپنے خزانے ا س امید پر نہ چھپائے کہ ہو سکتا ہے جب لوٹنے والا ہمارے گھر میں آئے تو وہ آتے ہی مر جائے گا یا اندھا ہو جائے گا یا وہ میرے گھر کو دیکھ نہ سکے گا، یہ سب باتیں اگرچہ ممکن ہیں لیکن ان پر اعتماد کرنا اور احتیاط سے ہاتھ اٹھا لینا حماقت ہے۔
(کیمیائے سعادت ج ۲ / ۷۷۳-۷۷۴بحوالہ تفسیر صرط الجنان)
امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:
’’گنا ہ ایمان کے لیے اس طرح ( نقصا ن دہ) ہیں جیسے مضرِ صحت کھانے جسم کو نقصان پہنچاتے ہیں ، وہ معدے میں جمع ہو تے رہتے ہیں حتّٰی کہ اَخلاط (یعنی صفراء ،بلغم وغیر ہ) مزاج کو بدل دیتے ہیں اور اس کو پتہ بھی نہیں چلتا یہاں تک کہ اس کا مزاج بگڑ جاتا ہے اور وہ اچانک بیمار ہو جا تا ہے اور پھر اچانک مر جاتا ہے تو گنا ہو ں کا معاملہ بھی یہی ہے، چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ جب اس فا نی دنیا میں ہلاکت کے خوف سے وہ زہر سے بچتا ہے اور ان کھا نو ں سے فوری طور پر بھی اور ہر حال میں بچتا ہے جو نقصان دہ ہو تے ہیں تو ابد ی ہلاکت سے ڈرنے والے پر بدرجہ اولیٰ گنا ہوں سے اجتنا ب ضروری ہے اور جب زہر کھانے والے پرلازم ہے کہ جو ں ہی نادم ہو قے کرے اور اس کھا نے سے رجوع کرے اور اسے معدے سے نکال دے اور یہ عمل فوری طور پر کرے تاکہ اس کا جسم ہلاکت سے بچ جا ئے حالانکہ اس کا نقصان صرف دنیوی ہے جبکہ دین کے معاملے میں گناہوں کی صورت میں زہر کھانا بدر جہ اَولیٰ نقصان دہ ہے تو اسے اس سے رجو ع کرنا چا ہیے اور جس قدر ممکن ہو تَدارُک کرے جب تک اس کے لیے مہلت ہے اور وہ اس کی زند گی ہے کیوں کہ جس کو اس زہر کا خوف اس لیے ہے کہ باقی رہنے والی آخرت سے محروم ہو جا ئے گا ،جس میں ہمیشہ کی نعمتیں اور بہت بڑی سلطنت ہے اور اس کے فوت ہو نے سے جہنم کی آگ اور ہمیشہ کے عذاب کا سامنا ہوگا اور دنیوی زندگی اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں کیوں کہ اُس کی کو ئی انتہا نہیں ،تو اس کے لئے گناہوں سے تو بہ کرنے میں جلدی کرنا ضروری ہے تاکہ گنا ہو ں کا زہر روح ایمان پر اثر انداز نہ ہو ۔ اور (اگر یہ روح ایمان پر اثرانداز ہو گیاتو) یہ ایسا اثر ہوگا جس کا ڈاکٹروں کے پاس بھی کو ئی علا ج نہیں اور نہ ہی اس کے بعد کوئی پرہیز اثر کرے گی، اس کے بعد نصیحت کرنے والوں کی نصیحت اور واعظین کا وعظ بھی فائد ہ نہیں دے گا اور اس پر یہ بات ثابت ہو جا ئے گی کہ وہ ہلاک ہونے والوں میں سے ہے۔
(احیاء علوم الدین، کتاب التوبۃ، ۴ / ۱۰-۱۱بحوالہ تفسیر صراط الجنان)

(گناہوں کا انجام)

Spread the love
barkatussunnah

Recent Posts

بیس رکعت تراویح کا ثبوت

بیس رکعت تراویح کا ثبوت

4 مہینے ago

بیس رکعت تراویح کا ثبوت

بیس رکعت تراویح کا ثبوت از:ابوالعطر محمد عبدالسلام امجدی برکاتی،تاراپٹی(نیپال) مقیم حال:دوحہ قطر بسم اللہ…

4 مہینے ago

شعبان کی فضیلت و اہمیت

شعبان کی فضیلت واہمیت: اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ شعبان المعظم ہے جو رحمت وبخشش…

5 مہینے ago

FATAWA BARKAT-1

فتاویٰ برکات اول

8 مہینے ago

This website uses cookies.