والدین کی خدمت و اطاعت کا صلہ:
ابوالعطر محمد عبدالسلام امجدی برکاتی
متھلا بہاری نگر پالیکا،تاراپٹی دھنوشا(نیپال)
وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(بنی اسرائیل آیت نمبر23)
ترجمہ:اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں(اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔
تفسیر:اللہ عزوجل نے اس آیت کریمہ میں اپنی عبادت و بندگی کے بعد بندوں کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک اور بھلائی کا برتاؤکریں۔والدین کی تعظیم و توقیر ، ان کے ساتھ نرم کلامی، آہستہ گوئی ،ان کی اطاعت یہ سب والدین کے ساتھ حسن سلوک کے مفہو م میں داخل ہے۔جو اولاد اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرتی ہے اللہ تعالیٰ اسے دونوں جہان میں خیر و برکت ،عروج و ارتقا، عزت و نیک نامی اور اعلیٰ مقام و مرتبہ اور اپنی رضا سے نوازتاہے۔مرتے وقت خاتمہ بالخیر کی توفیق
حضرت امام اسمعیل حقی حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی کتاب تفسیر روح البیان میں ایک بہت ہی پیارا واقعہ نقل فرماتے ہیں کہ ایک بزرگ کا بیان ہے کہ میں بنی اسرائیل کے جنگل سے گذر رہا تھا کیا دیکھتا ہوں کہ میرے آگے آگے ایک بزرگ چل رہے ہیں ، مجھے اس بات سے تعجب ہوا مجھے خیال گذرا کہ یہ بزرگ جو میرے آگے چل رہے ہیں وہ حضرت خضر علیہ السلام ہیں چنانچہ میں نے اس بزرگ سے عرض کیا کہ آپ کو اللہ کا واسطہ دیکر پوچھتا ہوں کہ آپ کون ہیں جو میرے آگے آگے چل رہے ہیں ؟جب میں نے خدا کا واسطہ دیکر اس بزرگ سے ان کا دریا فت کیا تو فرمایا میں خضر علیہ السلام ہوں۔جب مجھے معلوم ہوا کہ یہ اللہ کے نبی حضرت خضر علیہ السلام ہیں جو اتنے بڑے مرتبہ پر فائز ہوکرمیرے آگے آگے تشریف لے جارہے ہیں تو مجھے اور تعجب ہوا کہ آخر میر ے کس عمل کی برکت ہے کہ اللہ کے ایسے مقدس نبی میرے آگے آگے اور میں ا س نورانی چہرے والے نبی کے پیچھے ہوں،تو میں نے عرض کیا حضور آپ میرے ساتھ کیوں چل رہے ہیں؟تو جواب دیاکہ چونکہ تم اپنی والدہ کے ساتھ فرماں برداری کرتے ہو، تم اپنی ماں کا فرماں بردار بیٹاہے اور اسی لئے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ساتھ چلوں۔
سبحان اللہ سبحان اللہ!والدہ کے ساتھ فرمانبرادری اور نیک سلوک کرنے کا صلہ اور اس کی برکت و سعادت اور خوش نصیبی ہے کہ اللہ کے نبی حضرت خضر علیہ السلام کی صحبت اور آپ کی رفاقت میسر ہوتی ہے اور ایک انسان کے لئے اس سے بڑھ کر سعادت کی بات کیا ہو سکتی ہے کہ اسے ایک نبی کی زیارت نصیب ہوجائے۔اور سعادت ملتی ہے ماں کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آنے کی برکت سے ۔
باپ کی خدمت کا صلہ:
ماں باپ اولا د کے لئے اللہ عز وجل کی جانب سے ایک قیمتی اور انمول تحفہ ہے اور ایسا تحفہ ہے کہ جس کا کوئی بدل نہیں ہے ۔ ماں باپ خدمت کرنے سے اولاد کی زندگی میںبھی برکت پیدا ہوتی ہے اور روزی میں بھی بے شمار برکتیں نازل ہوتی ہیں۔اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اسے اس بات سے خوشی ہوکہ اس کے رزق اور اس کی عمر میں برکت ہو تو وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرے اور ان کے ساتھ بھلائی کرے۔باپ کی خدمت کی برکت سے متعلق ایک پیار ا واقعہ سماعت کرتے چلئے۔
حضرت طاؤس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مروی ہے کہ ایک شخص کے چار بیٹے تھے جب وہ بیمار ہوا تو اس کا ایک بیٹا اپنے تمام بھائیوں کو اکٹھا کرکے کہا کہ یا تو آپ لو گ ابا حضور کی خدمت کیجئے اور ان کی دیکھ بھال کیجئے یا میں کروں گا ۔مگر یا در ہے کہ جوبھی ان کی دیکھ بھال اور خدمت و خاطر داری کرے گا اس بیماری کی حالت میں اسے ابا حضور کے مرنے کے بعد ان کی جائیداد اور مال سے کچھ نہیں ملے گا۔یہ دن کر اس کے تینوں بھائیوں نے کہا تو پھر تم ہی با حضور کی خدمت و تیمار داری کرو۔اور ہاں تجھے بھی ان کے مال سے کچھ نہیں دیا جائے گا۔وہ بیٹا اپنے باپ سے بیحد محبت کرتا تھا اور سچی محبت اور پیار کرتا تھا، اسے باپ کی دولت سے مطلب نہیں تھا بلکہ اسے باپ کی رضاکی طلب تھی۔ اس نے بغیر کسی مال و دولت کی لالچ کے بغیر باپ کی خدمت و دیکھ بھال قبول کرلیا۔اور دل و جان سے باپ کی خدمت کرنے لگا۔ایک دن اس باپ انتقال ہوگیا۔اس کے مرنے کے بعد باپ کے ترکہ کا سار ا مال اس کے تینوں بیٹوں نے آپس میں تقسیم کرلیا اور جس بیٹے نے باپ کی خدمت کی تھی اس کے بھائیوں نے اسے کچھ نہیں دیا۔ایک رات جب وہ شخص جس نے اپنے باپ کی دولت پر باپ کی خدمت کو ترجیح دیا تھا سویا تھا تو خواب میں کیا دیکھتا ہے کوئی کہنے والا اس سے کہہ رہا ہے فلاں مقام پر جاؤ وہاں سو دینار رکھے ہیں جا کر لے لو۔اس شخص نے پوچھا کیا اس سودینار میں برکت ہے؟جواب ملا اس میں برکت نہیں ہے۔اس نے وہ سو دینار جس میں برکت نہیں تھی لینے سے انکار کردیا ۔ جب خواب سے بیدار ہواتو اس کا ذکر اپنی بیوی سے کیا کہ رات خواب میں مجھے کسی نے بتایا کہ فلاں مقام پر سو دینار رکھے ہیں جا کر لے لو مگر ان میں برکت نہیں ہے اس لئے میں نے لینے سے انکار کردیا ۔بیوی نے جھٹ سے کہا میاں جاؤ وہ سو دینار اٹھا لاؤ۔اس میں برکت ہے کہ ہم اس سو دینار سے کپڑے لیں گے اور کھانے پینے کا سامان لے لیں گے۔شوہر نے لینے سے انکار کردیا۔دوسری رات پھر خواب دیکھا کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے فلاں مقام پر جاؤ اور وہاں سے دس دینار لے لو۔اس نے پوچھا کیا اس دس دینار میں برکت ہے کہا نہیں ۔صبح ہوئی بیوی سے خواب کا ذکر کیا تو بیوی نے کہا اس میں برکت ہے جاؤ اسے اٹھا کر لے آؤ۔شوہر نے لینے سے انکار کردیا۔تیسری رات جب سونے کے لئے بستر پر گیا تو تھوڑی دیر کے بعد نیند آگئی خواب میں کیا دیکھتا ہے کہ کوئی کہنے والا کہہ رہا ہے فلاں مقام پر جاؤوہا ں ایک دینار رکھا ہوا اسے اٹھالو۔اس نے کہا کیا اس میں برکت ہے جواب ملا ہاں اس میں برکت ہے۔صبح ہوئی وہ شخص نیند سے بیدار ہوا اور جس جگہ کے بارے میں بتا گیا کہ وہاں ایک دینار ہے گیا اور وہاں سے اک دنیا ر لے لیا۔وہ شخص اس ایک دینار کو لے کر بازار گیا جب بازار گیا تو دیکھا کہ ایک شخص دو مچھلیاں بیچ رہا ہے۔مچھلی بیچنے والے سے پوچھا یہ دونوں مچھلیاں کتنے میں بیچوگے؟کہا ایک دینار میں اس کے پاس ایک دینار تھا ہی اس کے بدلے دونوں مچھلیاں خرید لی اور مچھلیاں لے گھر آیا جب اس نے مچھلیوں کے پیٹ کو چاک کیا ،چیرا تو کیا دیکھتا ہے دونوں مچھلیوں کے پیٹ میں ایک ایک خوبصورت موتی ہے اور اتنا خوبصورت کہ اس سے زیادہ خوبصورت موتی لوگوں نے آج تک دیکھا ہی نہیں تھا۔
دیکھئے باپ کی خدمت کی برکت کس طرح حاصل ہوتی ہے۔اس ملک میں جو بادشاہ رہتا تھا اسے موتی کی ضرورت تھی چنانچہ اس بادشاہ اپنے چند آدمیوں کو موتی کی تلاش میں بھیجا تلاش کرتے کرتے اس آدمی کے گھر پہنچا جب بادشاہ کے آدمیوں نے اس قیمتی موتی کو دیکھا تو تیس خچر کے بوجھ کے برابر سونا دیکر موتی خرید لیا اور بادشاہ کے پاس پیش کردیا بادشاہ اس موتی کی خوبصورتی کو دیکھ کر بیحد خوش ہوا اور کہا کہ اس خوبصورت اور چمکدار موتی کا جوڑا بھی ہوگا۔جاؤ اور اس سے خرید کر لاؤ ۔چنانچہ بادشاہ کے کارندے اس کے پاس گئے اور کہا بھائی اس کا جوڑا اگر تمہارے پاس ہے تو وہ بھی دے دو اس کے بدلے تم جتنا سونا مانگوگے تمہیں دیا جائے گا۔پہلی بار ایک موتی کی قیمت جتنی دی گئی تھی اس کی دو گنی دیں گے۔ یعنی ساٹھ خچرکے بوجھ کے برابر ۔اس نے کہا کیا تم اتنا سونا دو گے؟بولے ہاں دیں گے۔چنانچہ اس نے وہ موتی بادشاہ کے آدمیوں کو دیدیا اور بادشاہ کے آدمیوں نے اس ایک موتی کے بدلے اسے ساٹھ خچروں کے بوجھ کے برابر سونا دیا۔(حلیۃ الاولیاللاصفہانی ج۴ص۷-۸مطبوعہ دار الفکر بیروت،لبنان)
حضرات !دیکھا آپ نے باپ کی دل و جان سے خدمت اور دیکھ بھال کرنے کا صلہ اور برکت کہ جو شخص باپ کی خدمت اور دیکھ بھا ل جان و دل سے کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے وہم و گمان سے بھی زیادہ عطافرما دیتا ہے۔سچ فرمایا میرے آقا کریم ﷺ نے کہ:
مَنْ سَرَّہُ اَنْ یُّمَدَّلَہُ فِی عُمُرِہِ وَ یُزَادَ فِی رِزْقِہِ فَلْیَبَرَّ وَالِدَیْہِ وَلْیَصِلْ رَحِمَہُ۔(ترغیب و ترہیب ج۳ص۳۱۷عن انس)
ترجمہ:جو چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی عمر بڑھادے اور اس کے رزق میں برکت نازل کرے تو اسے چاہئے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرے، ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرے۔
ماں کی اطاعت کی برکت:
بنی اسرائیل میں ایک شخص بہت مالدار تھا جس کا نام عامیل تھا ، اس کے چچا زاد بھائی نے اس لالچ میں اسے قتل کردیا کہ اس کا سب مال اس کو مل جائے۔اس لئے کہ تنہا وہی اس کا وارث تھا ، اس نے عامیل کو قتل کرکے دور کی بستی کے دروازے پر ڈال دیا ، صبح کو اس خون کا مدعی بنا ۔وہاں کے لوگوں نے حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ والتسلم سے درخواست کی کہ قاتل کا پتہ چلائیں۔اس پر حضر ت موسی علیہ الصلاۃ والتسلیم نے ان کو حکم دیا ایک گائے ذبح کرکے گائے کے کسی عضو کو مقتول پر ماریں، وہ زندہ ہوکر خود بتا ئے گا کہ مجھے کس نے قتل کیا ہے، اس پر ان جاہلوں نے حضرت موسیٰ علیہ الصلاۃ و التسلیم پر پھبتی کسی کہ آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں ہم آپ سے عرض کرتے ہیں کہ قاتل کا پتہ چلائیں اور آپ فرماتے ہیں کہ گائے ذبح کرودونوں میں کیا مناسبت ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ مذاق کرنا جاہلوں کا کام ہے خدا کی پناہ کہ میں جاہل بنوں۔اب انھوں نے پوچھا کہ وہ گائے کیسی ہوگی یعنی کس عمر کی؟فرمایا نہ بوڑھی نہ اوسر(زیادہ عمر درازہو) بلکہ ان دونوں کی بیچ میں ادھیڑ(ہو) ۔تم سے جو کہا جارہا ہے کرو ۔مگر پھر بھی وہ گھامڑ نہ سمجھے اور پوچھا کہ وہ کس رنگ کی ہوگی ؟فرمایا پیلے رنگ کی جس کا رنگ بھڑکدار ہو ، جسے دیکھنے والے خوش ہوجائیں ۔اب اس کے بعد انہوں نے پوچھا اب بھی گائے کا معاملہ مشتبہ ہے ، (سمجھ سے باہرہے)آپ ذرا اور توضیح فرمادیجئے(اس گائے کے بارے میںاور خلاصہ کردیجئے) انشاء اللہ ہم منزل تک پہنچ جائیں گے۔موسی علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے وہ ایسی گائے ہو جسے خدمت نہ لی جاتی ہو نہ زمین جوتے نہ کھیتی کو پانی دے، بے عیب ہو، اس میں کوئی داغ نہ ہو ۔یہ سن کر انہوں نے کہا اب آپ نے ٹھیک بتا یا ہے ۔انشاء اللہ تعالیٰ ہم ضرور مقصود تک پہنچ جائیں گے، اس کے بعدگائے کی تلاش شروع ہوئی لیکن ان صفات کی کوئی گائے مل نہیں رہی تھی۔بہت تلاش کے بعد ان تمام صفات کے ساتھ موصوف صرف ایک گائے ملی۔
اس کا قصہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک نیک شخص تھے جن کا ایک چھوٹا بچہ تھاان کے پاس ایک گائے کے بچہ کے سوا اور کچھ نہ تھا، انہوں نے اس کی گردن پر مہر لگاکر اللہ کے نام پر چھوڑ دیا اور بارگاہ ایزدی میں یہ عرض کیا اے رب !میں اس بچھیاکو اپنے اس لڑکے کے لئے تیرے پاس امانت رکھتا ہوں جب یہ لڑکا بڑا ہوجائے تو یہ گائے اس کے کام آئے۔اس کے بعد ان کا انتقال ہوگیا ،یہ بچھیا جنگل میں اللہ تعالیٰ کے حفظ و امان میں پرورش پاتی رہی۔کچھ دنوں کے بعد یہ لڑکا بڑا ہوا ، باپ کی طرح نیک بخت ، نیک چلن تھا ، اس کی ماں زندہ تھی ، ماں کا اطاعت شعار رہا۔ایک روز اس کی ماں نے اپنے لڑکے سے کہا تیرے باپ نے فلاں جنگل میں تیرے نام پر اللہ کی حفاظت میں ایک بچھیا چھوڑ دی تھی ، اب وہ جوان ہو گئی ہوگی، اس کو جنگل سے لا ، یہ لڑکا جنگل میں گیا اور اس گائے کو پایا اس میں وہ تمام نشانیاں پائی جاتی تھیں جو اس کی ماں نے اس کو بتا یا تھا اس نوجوان نے اس گائے کو اللہ کی قسم دے کر پکارا تو اس کے پاس حاضر ہوئی ،جوان اس کو لے کر اپنی ماں کی خدمت میں لے کر آیا ۔ماں نے حکم دیا اس کو بازار میں لے جاکر تین دینار میں بیچ دے اور یہ بھی ہدایت کردی کہ سودا ہوجانے کے بعد پھر مجھ سے اجازت لی جائے۔ان ایام میں اس اطراف میں گائے کی قیمت تین ہی دینار تھی۔جوان جب اس گائے کو بازار میں لایا تو ایک فرشتہ خریدار کی شکل میں آیا ، اس نے گائے کی قیمت چھ دینار لگا دی اور یہ شرط کردی کہ سودا پکا کر لو اور والدہ کی اجازت پر موقوف نہیں رہے گا۔جوان نے اسے منظور نہ کیا اور اپنی والدہ ماجدہ سے سارا قصہ بیان کردیا ۔اس کی والدہ نے چھ دینا ر قیمت منظور کرنے کی تو اجازت دی مگر یہ کہہ دیا کہ پھر مجھ سے پوچھ لینا ۔یہ شخص پھر بازار میں آیا ،فرشتے نے اب بارہ دینار قیمت لگائی اور یہ کہا کہ والدہ ماجدہ کی اجازت کی ضرورت نہیں ۔جوان نے قبول نہیں کیا اور والدہ کو اس کی اطلاع دی، اس کی والدہ نے فراست ایمانی سے سمجھ لیا یہ کوئی خریدار نہیں بلکہ فرشتہ ہے جو آزمائش کے لئے آتا ہے ،بیٹے سے کہا اب کی مرتبہ اس خریدار سے یہ کہنا کہ ہمیں گائے کے فروخت کرنے کا حکم دیتے ہیں یا نہیں ؟لڑکے نے فرشتے سے جاکر یہی کہا ،اس پر فرشتے نے حکم دیا اس کو ابھی نہ بیچو،بنی اسرائیل اس کو خریدنے آئیں گے وہ جب آئیں تو اس گائے کی قیمت یہ بتانا کہ اس کی کھال کو سونے سے بھر دو ۔جوان اس گائے کو گھرلایا ادھر بنی اسرائیل تلاش کرتے کرتے اس کے مکان پر پہنچے ۔(نزہۃ القاری ج ۶ص۵۴۴)
جب وہ لوگ اس نوجوان کے پاس پہنچے اور اس گائے کی قیمت پوچھی کہ اس کی قیمت کیا ہے اور کتنے میں بیچوگے تو اس نے کہا: واللہ لا انقصھا من مل ء جلدھا ذھبا فاخذوھا بمل جلدھاء ذھبا۔(تفسیر ابن کثیر ج۱ص۱۹۰)
خدا کی قسم میں اس گائے کو اس کی کھال بھر سونے سے کم قیمت پر نہیں بیچوں گا۔آخر کار ان لوگوں نے وہ گائے اس نوجوان سے کھال بھر سونے کی قیمت کے بدلے خریدلیا۔
قارئین !جس گائے کی قیمت صرف تین دینار تھی وہ گائے ماں کی اطاعت و فرماںبرداری اور والدہ کی باتوں پر عمل کرنے کی برکت سے اتنے سونے کے بدلے بکی جس کا وہم و گمان اس نوجوان کوتو کیا کسی کو بھی نہیں تھا۔اسی لئے تو میرے آقا کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی عمر بڑھادے اور اس کے رزق میں برکت نازل کرے تو اسے چاہئے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرے، ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرے۔(ترغیب و ترہیب ج۳ص۳۱۷عن انس)
This website uses cookies.