رد فرقہائے باطلہ

بیس رکعت تراویح کا ثبوت

بیس رکعت تراویح کا ثبوت

از:ابوالعطر محمد عبدالسلام امجدی برکاتی،تاراپٹی(نیپال)

مقیم حال:دوحہ قطر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

رکعات تراویح پر ایک زمانہ سے اعتراضات غیر مقلدین وہابیوں کی جانب سے مسلسل کئے جاتے رہے ہیں اور تاہنوز یہ منحوس سلسلہ جاری ہے،جبکہ بیس رکعات تراویح کا ثبوت احادیث کریمہ ،صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مبارک عمل اور فقہا کرام کی کتابوں سے واضح ہے اور خود غیر مقلدین کے رہنما ابن تیمیہ اور دیگر مولویوں نے اسے صحیح کہا ہے۔یہاں مختصرا بیس رکعات تراویح کی فضیلت اور ثبوت میں چند احادیث کریمہ اور آثار پیش کئے جارہے ہیں اور مزید تفصیل کے لئے فقیر کا رسالہ ’’بیس رکعات تراویح فضائل و ثبوت‘‘  کا مطالعہ فائدہ مند رہے گا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو رمضان المبارک میں ایمان کی حالت میں ثواب اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کی نیت سے قیام کرے گا یعنی تراویح پڑھے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے گذرے گناہوں کو معاف فرمادے گا۔

حضرت ابو سلمہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمہارے اوپر ماہ رمضان المبارک کے روزے فرض کردئے اور میں نے اس کی قیام یعنی نماز تراویح کو تمہارے لئے سنت قرار دیا ۔ تو جو شخص ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے رمضان کا روزہ رکھے اور رات میں شب بیداری یعنی تراویح پڑھے تو وہ گناہوں سے اس دن کی طرح پاک و صاف ہو جائے گا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا۔(ابن ماجہ حدیث نمبر ۱۳۲۸،مسند احمدحدیث نمبر۱۶۶)

حضرت امام نخعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:رمضان کے ایک روزے کا ثواب ایک ہزار دنوں کے روزوں سے زیادہ ہے،اور ایک بار سبحان اللہ کہنے کا ثواب ایک ہزار بار کہنے کے برابر عطاکیا جائے گا اور رمضان میں ایک رکعت پڑھنے کا ثوا ب ایک ہزار رکعتوں سے بڑھ کر ہے۔(بغیۃ الانسان فی وظائف رمضان ص ۵ ۱ )

حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز تراویح قائم کرنے کا حکم اسی حدیث کی روشنی میں دیا ہے جو انہوں نے مجھ سے سنی تھی۔صحابہ کرام نے عرض کی اے امیر المومنین وہ حدیث کیا تھی؟تو آپ نے فرمایا  میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے سنا ہے: اللہ تعالیٰ کے عرش کے ارد گرد ایک نوری مقام ہے جسے حظیرۃ القدس کہا جاتا ہے ،اس میں فرشتوں کی اتنی کثیر تعداد ہے کہ جن کا شمار اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔وہ لمحہ بھر بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت سے غافل نہیں ہوتے۔ماہ رمضان المبارک کی راتوں میں اپنے رب سے زمین پر آنے کی اجازت طلب کرتے ہیں تاکہ وہ انسانوں کے ساتھ نماز ادا کریں ۔تو وہ فرشتے ہر رات زمین پر اترتے ہیں ، جس بندے سے وہ فرشتے مس کرلیں یا جس شخص کو ان فرشتوں کی چھونے کا موقع میسر ہو وہ ایسا سعادت مند اور خوش نصیب ہو جاتا ہے کہ کبھی بدبخت نہیں ہوسکتا ۔(یہ حدیث سننے کے بعد)حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے تو ہم اس چیز کے زیادہ حقدار ہیں ( کہ یہ سعادت ہم حاصل کریں)چنانچہ آپ نے لوگوں کو نماز تراویح کے لئے جمع کیا اور اسے باقاعدہ اہتمام کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیا۔(تنبیہ الغافلین ص۱۸۷)

حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ   رسول اللہ ﷺ آدھی رات کو تشریف لے گئے اور مسجد میں نماز پڑھی ، لوگوں نے بھی آپ کی اقتدا میں نماز پڑھنی شروع کردی ۔ صبح لوگوں نے آپس میں اس واقعہ کا ذکر کیا تو پہلی رات سے زیادہ لوگ جمع ہوگئے ۔دوسری رات رسول اللہ ﷺ پھر تشریف لے گئے اور لوگوں نے آپ کی اقتدا میں نماز پڑھی ۔ پھر لوگوں نے صبح اس بات کا چرچا کیا ، تیسری رات مسجد میں بہت زیادہ لوگ جمع ہوگئے ۔ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور لوگوں نے آپ کی اقتدا میں نماز پڑھی ۔اور چوتھی رات کو اس قدر کثرت سے صحابہ جمع ہوئے کہ مسجد تنگ پڑ گئی اور رسول اللہ ﷺ اس رات مسجد تشریف نہیں لائے۔لوگوں نے نماز نماز پکارنا شروع کردیا ۔ حضور اقدس ﷺ مسجد میں اس وقت تشریف نہیں لائے بلکہ صبح کی نماز کے وقت تشریف لائے۔جب صبح کی نماز سے فارغ ہو چکے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا گذشتہ رات تمہارا حال مجھ پر پوشیدہ نہ تھا لیکن مجھے یہ خوف تھا کہ تم پر رات کی نماز یعنی تراویح فرض کردی جائے گی اور تم اس کی ادائیگی سے عاجز ہو جاؤگے۔(مسلم حدیث نمبر ۷۶۱)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ رمضان المبارک میں لوگ مسجد کے ایک گوشہ میں نماز پڑھ رہے تھے ، تو آپ نے فرمایا یہ کون ہیں؟عرض کیا گیا یہ وہ لوگ ہیں جنہیں قرآن یا د نہیں ہے اور حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز پڑھاتے ہیں اور یہ لوگ ان کی اقتدا میں نماز پڑھتے ہیں۔ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا ان لوگوں نے درست کیا اور یہ لوگ جو کر رہے ہیں بہت ہی عمدہ اور اچھا عمل ہے۔(ابو داؤد ج۲ص ۵۰حدیث نمبر ۱۳۷۷،ابن حبان ج۶ص۲۸۲)

تراویح کی فضیلت میں دو احادیث کریمہ مسلم شریف اور ابو داؤد شریف کے حوالہ سے آپ پڑھ چکے ہیں، پہلی حدیث جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی تھی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور ﷺنے تین دن جماعت کے ساتھ نماز تراویح پڑھائی اور صحابہ کرام نے تین دنوں تک رمضان شریف کی رات میں آپ کی اقتدامیں نماز تراویح ادا کی۔اور دوسری حدیث جو حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی تھی جس کا حاصل یہ ہے کہ حضور ﷺ نے مسجد کے گوشہ میں کچھ لوگوں کو حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقتدا نماز تراویح پڑھتے ہوئے دیکھا تو سرکار نے خوشی کا اظہار فرمایا اور ان لوگوں کو سراہا بھی۔ ان دونوں حدیثوںسے اتنا تو ثابت ہے کہ حضور اقدس ﷺ کے زمانہ مبارکہ میں ہی جماعت کے ساتھ نماز تروایح شروع ہو چکی تھی اور خود حضور نماز تراویح پڑھی اورپڑھائی۔لیکن ان دونوں حدیثوں میں اس بات کی صراحت و ضاحت نہیں کہ حضور  ﷺ نے کتنی رکعت تراویح پڑھائی اور حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کتنی رکعت پڑھا رہے تھے۔جس کی وجہ سے تعداد رکعات میں اختلاف ہوگیا مگر صحیح یہی ہے کہ حضور ﷺ نے بیس رکعت ہی پڑھائی اسی لئے تو حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیس رکعت ہی کا اہتما م فرمایا جس پر تمام صحابہ کرام کا اجماع و اتفاق ہوگیا اور کسی نے بھی انکار نہیں کیا ۔کیونکہ صحابہ کرام بخوبی جانتے تھے کہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ نے بیس رکعت تراویح کا اہتمام کسی اصل اور دلیل کی بنا پر ہی کیا تھا۔  حضر عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں یہ کیسے تصور اور وہم و گمان کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی طرف سے بغیر کسی دلیل کے بیس رکعت تراویح کو رائج کیا اور یہ کہہ کر بیس رکعت تراویح کو معاذ اللہ بدعت عمری سے تعبیر کرنا شان فاروقی میں گستاخی و توہین کی جرأت و بے باکی کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔اس طرح کی بولی رفعت عمر فاروق اعظم کو گھٹانے کے لئے غیر مقلدین زمانہ کی دریدہ دہنی کا بین ثبوت ہے۔

اب آئے بیس رکعت تراویح کے ثبوت میں مزید احادیث و آثارملاحظہ کریں:

حضرت عبد الرحمن بن عبد القاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ایک رات مسجد کی طرف نکلا تو لوگوں کو بکھرے ہوئے دیکھا ، کوئی تنہا نماز پڑھ رہا تھا اور کسی کی اقتدا میں ایک گروہ نماز پڑھ رہا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا:

 میرے خیال سے انہیں ایک قاری کے پیچھے جمع کردیا جائے تو اچھا ہوگا، چنانچہ انہوں نے حضرت ابی بن کعب کی اقتدامیں جمع کردیا ۔ پھر میں ایک رات حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ نکلا تو دیکھا لوگ ایک امام کی اقتدا میں نماز تراویح پڑھ رہے تھے ، یہ دیکھ کر حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یہ کیا ہی اچھی بدعت اور عمدہ طریقہ ہے۔

(بخاری حدیث نمبر ۱۹۰۶، ابن خزیمہ ج۲ص ۱۵۵،مؤطا مام مالک ج۱ص۱۱۴)

حضرت یزید بن رومان رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا :

(مؤطا امام مالک ج۱ص۱۱۵، شعب الایمان ج۳ ص ۱۷۷، سنن کبریٰ للبیھقی ج۲ص۴۹۶،نیل الاوطار ج۳ص۶۳)

نماز تراویح حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں لوگ وتر سمیت تئیس (۲۳) رکعت نماز تراویح پڑھتے تھے۔

ان احادیث و روایا ت سے یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر و باہر ہوگئی کہ حضر ت عمر بن خطاب ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکرم اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے دور خلافت میں بیس رکعت نماز تراویح پڑھی جاتی تھی اورتمام صحابہ کرام بغیر انکار کئے بیس رکعت تراویح ایک امام کے پیچھے ادا کرتے تھے اور اسی مقدس جماعت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہم سنی حنفی خوش نصیب لوگ بھی بیس رکعت نماز تراویح پڑھتے ہیں ۔ 

اس کے خلاف غیر مقلدین حدیثیں پڑھ کر غلط مطلب نکالتے ہیں اور مسلمانوں کو گمراہ کرتے اور مسلمانوں میں تفریق پیدا کرتے ہیں۔ہاں ایک حدیث ہے جو بخاری شریف میں حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے اور اسی ایک حدیث کو اپنی ناسمجھی کی بنیاد پر آٹھ رکعت تراویح کے ثبوت میں دلیل بناکر پیش کرتے ہیں۔جبکہ یہ حدیث تراویح کے سلسلے میں نہیں بلکہ حضور ﷺکی تہجد کے سلسلے میں ہے۔حدیث ملاحظہ کریں:

حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا : رسول اللہ ﷺ کی نماز رمضان میں کیسی ہوتی تھی؟تو انہوں نے فرمایا کہ رمضان اور غیر رمضان دونوں میں رسول اقدس ﷺ کی نماز گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔

(بخاری ج۱ص۱۵۴ کتا ب التہجد)

غیر مقلدین اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گیارہ رکعتوں میں تین رکعت وتر کی تھی اور باقی آٹھ رکعتیں تراویح کی تھیں۔اس سے ثابت ہو اکہ تراویح کی نماز بیس رکعت نہیں بلکہ آٹھ رکعت ہی ہے۔یہ بات کون کہتا ہے ؟غیر مقلدین وہابی کہتے ہیں۔غیر مقلدین کا اس حدیث سے یہ سمجھنا کہ حضور ﷺ آٹھ رکعت تراویح پڑھتے تھے یہ غلط اور حدیث نہ سمجھنے کی دلیل ہے۔کیونکہ:

٭اس حدیث میں نماز تراویح کا ذکر نہیں بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور ﷺکی نماز تہجد کے بارے میں بتایا کہ حضور اقدس ﷺ جس طرح غیر رمضان میں آٹھ رکعت تہجد اور تین رکعت وتر پڑھتے تھے اسی طرح حضور رمضان میں بھی آٹھ رکعت تہجد اور تین رکعت وتر پڑھتے تھے۔یہ ہمیشہ کا معمول سرکار مصطفی ﷺ کا تھا ۔ایسا نہیں کہ رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میںحضور تہجد کی نماز پڑھتے اور رمضان میں نہیں۔اسی لئے تو امام بخاری ، امام مسلم ، امام ترمذی اور دوسرے محدثین نے اس حدیث کو کتاب التہجد یعنی تہجد کے باب میں ذکر کیا ہے۔اگر اس حدیث میں تراویح مراد ہوتی تو ضرور یہ محدثین اس حدیث کو تراویح کے باب میں بیان کرتے ۔

٭دوسری بات یہ کہ جب حضرت عائشہ صدیقہ سے پوچھا گیا کہ رمضان شریف میں حضور کی نماز کیسی تھی تو آپ نے فرمایا کہ رمضان اور غیر رمضان دونوں میں گیارہ رکعت ہی پڑھتے تھے ۔ تو یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ رمضان میں تراویح کی نماز ہوسکتی ہے مگر غیر رمضان میں تراویح کہاں ہوتی ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ نے اس حدیث میں حضور کی نماز تہجد کی تعداد بتائی ہے جسے رمضان اور غیر رمضان دونوں میں ادا فرماتے تھے۔

Spread the love
barkatussunnah

Recent Posts

بیس رکعت تراویح کا ثبوت

بیس رکعت تراویح کا ثبوت

6 دن ago

شعبان کی فضیلت و اہمیت

شعبان کی فضیلت واہمیت: اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ شعبان المعظم ہے جو رحمت وبخشش…

1 مہینہ ago

FATAWA BARKAT-1

فتاویٰ برکات اول

4 مہینے ago

ARBAEEN-E-MISHKAT

ARBAEEN-E-MISHKAT

5 مہینے ago

This website uses cookies.