حاملہ بالزنا کا حکم فتاویٰ شیرنیپال کی روشنی میں:
از: ابوالعطر محمد عبدالسلام امجدی برکاتی
متھلا بہاری نگرپالیکا،تاراپٹی مشرقی محلہ،دھنوشا(نیپال)
جو عورت شادی شدہ ہو اور شوہر اس سے دور ہو مثلا سعودی عرب رہتا ہو اور اس بیچ کسی غیر مرد سے اس کا ناجائز تعلق ہوجائےاور زنا سے حاملہ ہوجائے اور پھر شوہر اسے طلاق دیدے تو اس پر عدت ہے یا نہیں ؟اس بارے میں شرعی نقطہ نظر یہی ہے کہ اس پر عدت ہے،بغیر عدت اس کا نکاح کسی سے نہیں ہوسکتا ۔ چند سال قبل2016ء میں نیپال میں اسی طرح کا ایک واقعہ پیش آیا تو دھنوشا ضلع سے تعلق رکھنے والے یک مفتی صاحب نے عدم عدت کا فتویٰ دیا تھا اور ان کی موافقت میں ان کے ہم پیالہ کئی ایک علما نے بھی اس فتویٰ کی تائید کی اور اپنے اسی موقف پر کئی ہفتہ تک قائم رہے اور اپنے موقف کو صحیح بتاتے رہے جو سراسر اسلامی نقطہ نظر کے خلاف بلکہ تحریف قرآن کی ابتدائی سعی تھی،جس کا رد کرنا اہل علم پر ضروری تھا، فقیر ابوالعطر محمد عبدالسلام امجدی برکاتی اور مفتی احمد رضا ثقافی نے اس فتویٰ اور اس باطل موقف کا رد کیا اور مفتی کو نظرثانی کرنے کرنے کوکہا ،مگر کئی ہفتہ تک اپنے اسی موقف پر قائم رہے یہاں تک جامعہ اشرفیہ ،بریلی شریف اور ادارہ شرعیہ پٹنہ سے بھی اس فتویٰ کے خلاف فتویٰ آیا پھر انہوں نے اپنی غلطی کا اقرار کیا۔یہ مسئلہ حضور شیرنیپال علیہ الرحمہ کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے بھی فرمایا کہ اس عورت پر عدت واجب ہے۔پھر جب میں نےفتاویٰ برکات کا مطالعہ کیا تو اس موقف کی تائید میں آپ کے کئی ایک فتویٰ دیکھا،بلکہ ایک فتویٰ تو اسی نوعیت کا بھی نظر سے گذرا جس کا ذکر اوپر ہوا جس کے جواب میں مفتی صاحب نے عدم عدت کا حکم دیا تھا۔حضور شیر نیپال کا نظریہ اس بارے میں اس لئے بھی یہاں بیان کیا جارہا ہے کہ مسئلہ چند سال قبل بہت نزاعی اور آپسی اختلاف و انتشار کا باعث بن چکا ہے ۔لیکن اس سے پہلے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ایک فتویٰ و موقف بھی یہاں پیش کیا جارہا ہے تاکہ عدم جواز کے قائل مفتی صاحب پر یہ واضح ہوجائے کہ ان کا موقف کس صورت میں جائز تھا اور ان سے کیا خطا ہوئی اور ان کے استدلال کی حیثیت وجہت کیا ہونی چاہئے وہ خود ہی اس فتویٰ کی روشنی میں متعین کرلیں۔چنانچہ اعلیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
’’جو عورت معاذا للہ زنا سے حاملہ ہو اس سے نکاح صحیح ہے خواہ اس زانی سے ہو یا اس کے غیر سے، فرق اتنا ہے کہ زانی جس کا حمل ہے وہ اس سے قربت بھی کرسکتاہے اور غیر زانی اگر نکاح کرے تو تاوضع حمل قربت نہیں کرسکتا۔
لئلا یسقی ماءہ زرع غیرہ ۱؎ درمختار ، وصحح نکاح حبلی من زنا ۲تنویر الابصار۔
تاکہ دوسرے کی کھیتی کو اپنے پانی سے سے سیراب نہ کرے۔ درمختار، زنا سے حاملہ کا نکاح صحیح ہے۔ تنویر الابصار (ت)
عدت زن شوہر دارپر ہوتی ہے، جب شوہر مرے طلاق دے اور ذات زوج کا حمل زوج ہی کا ٹھہرتا ہے قال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم: الولد للفراش وللعاھر الحجر ۳؎ (بچے کا نسب نکاح والے کے لیے ہے زانی کو محرومی ہے۔ ت)
آیہ کریمہ میں "اولات الاحمال” سے یہی مراد ہے صدر کلام خاص صورت طلاق ارشاد ہوئی ہے اور اسی کی تفصیل فرمائی گئی۔
یا یھا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوھن لعدتھن واحصوا العدۃ ۴؎۔
اے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عورتو ں کو طلاق دیتے وقت ان کی عدت کا پا س کر و اور عدت کا شمار کرو۔ (ت)
حوالہ جات:
۱؎ (درمختار شرح تنویرا لابصار فصل فی المحرمات مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۸۹)
۲؎ (درمختار شرح تنویرا لابصار فصل فی المحرمات مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۸۹)
۳؎ (صحیح مسلم باب الولد للفراش الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۴۷۰)
۴؎ (القرآن ۶۵ /۱)
(فتاویٰ رضویہ ج11 کتاب النکاح مترجم)
اب حضور شرنیپال علیہ الرحمہ کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں ،آپ سے سوال ہوا:
زید نے ہندہ سے نکاح کیا اور کچھ مدت تک ساتھ رہا ۔ اس کے بعد وہ عرب چلاگیا ۔ یعنی زید کے چلے جانے بعد کچھ مدت کے بعد ہندہ نے بکر سے نا جائز تعلق پیدا کرلیا اور زنا میں ملوث ہو گئی ۔اب اسی بکرکے ذریعہ سے ایک بچہ پیدا ہوا جس کا اقرار بکر وہندہ دونوں کو ہے اور دوسراحمل بھی ہے ۔اب زید عرب سے آیا اور ہندہ کو طلاق دیا اور ہندہ کا نکاح بکر سے ہی ہونے والا ہے تو اس حالت میں کیا ہندہ عدت گزار ے گی یا نہیں ؟
اس استفا کے جواب میں آپ تحریر فرماتے ہیں:
’’صورت مذکورہ میں ہندہ پر عدت کی مدت گزارنی بعد طلاق فرض قطعی ہے اور اس کی عدت وضع حمل ہے اور جب تک وضع حمل نہ ہوے بکر کا ہندہ سے نکاح حرام قطعی ہے اور زنائے خالص ۔ یہ احکا م قرآ ن عظیم میں منصوص ہیں ۔قال اللّٰہ تعالیٰ وَأُولاتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ۔ (پ:۲۸ع:۱۷سورہ طلاق) اورحمل والیوں کی عدت یہ کہ اپنا حمل جن لیں ۔اس آیت کریمہ کے تحت صدرالا فاضل علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔ خواہ وہ عدت طلا ق تین مہینے ہیں ۔اور ان کی جنہیں ابھی حیض نہ آیا یعنی جوسن ایاس کوپہنچ گئی ہوں یاصغیرہ ہیں یاعمر توبلوغ کی آگئی مگر ابھی حیض نہ شروع ہوا،ان سب کی عدت تین ماہ ہے اور اگر حائضہ ہیں توان کی عدت تین حیض ہے ۔ سورہ بقرہ میں ہے: وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ(پ:۲ع:۱۱)اورطلاق والیاں اپنی جانوں کو روکے رہیں تین حیض تک ۔ اور اگر حاملہ ہیں توان کی عدت وضع حمل ہے ۔ جیسا کہ سوال نمبر ایک میں بیان ہوا ۔ اوراگر مطلقہ غیر مدخولہ ہے ان سے خلوت صحیحہ نہ ہوئی ہے تو ان پر طلاق کی عدت نہیں ہے ۔جیسا کہ سورۂ احزاب میں ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِن قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّونَهَا۔(پ:۲۲ ع: ۳) اے ایمان والو!جب تم مسلمانوں عورتوں سے نکاح کرو پھر انہیں بے ہاتھ لگائے چھوڑ دوو تو ان پرتمہاری وجہ سے کوئی عدت نہیں جسے تم شمار کرو ۔ قرآن عظیم میں ارشاد ہے: وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا۔(پ:۲ع:۱۴)اورتم میں جو مریں اور بیویاں چھوڑ یں وہ چار مہینے دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں ۔ درمختار میں ہے: وللموت اربعۃ اشہروعشرمطلقاً وطئت اولا الحامل۔اب بتائے کہ زن غیر مدخولہ جواپنے شوہرکے پاس ایک آن کے لئے گئی بھی نہیں مگر وہ بھی چارماہ دس دن عدت گزار ے ، آخرکیوں؟ یہاں کیا اشتباہ حمل ہے؟ یاجس عورت سے خلوت ہوئی مباشرت نہ ہوئی ،وہ بھی عدت گزارے ، اس کی وجہ کیا؟ صغیرہ بھی گزارے ،سو سواسوسال کی بوڑھی عدت گزارے ،ضرورت؟ اور عدت وفات حیض نہ ہوکر چارمہنے دس دن کیوں قرار پائے ، اگر ہوںتوتین ماہ کیوں نہ ہوں جس طرح آئسہ اور صغیرہ کے لئے تین حیض کی جگہ تین مہینے قائم فرمائے ۔نماز ، میں غور کریں صبح کی دو، مغرب کی تین ، باقی کی چار چار رکعتیںکیوں ہیں؟۔ غرض ایسے سوالوں کا دروازہ کھولنا علوم وبرکات کا دروازہ بندکرنا ہے۔ مومن کوچاہئے کہ جو خداورسول خداکا حکم ہواس کے آگے خشوع و خضوع کے ساتھ دل سے اور سچے دل سے برضاورغبت تسلیم وتصدیق کرتے ہوئے سرنیا زخم کردیں ۔ چاہے عقل فہم سے قاصر رہے۔ یہاں این وآں کرناسخت محرومی سے اللہ جل شانہ ہدایت دے۔ آمین ! مقاصد شرع کی بجاآوری اپنا مقصد رکھنا چاہیے اوران احکام شرع کے مطابق عمل کرنے کی علت خود حکم شرع ہے اور ساری علتوں کا سمجھنا ماوشما کی سمجھ سے باہر ہے۔ مگر بلاشبہ احکام میں بڑی حکمتیں اور نصیحتیں ہیں۔‘‘(فتاویٰ برکات ،کتاب الطلاق)
انوار فقہیہ:
حاملہ بالزنا کی عدت کے حوالے سے حضور شیرنیپال علیہ الرحمہ نے خوب واضح انداز میں دلائل کی روشنی میں صحیح قرآنی موقف کی نمائندگی فرمائی ہے اور غلط فکر کی اصلاح بھی فرمادی ہے۔میں کچھ انوار فقہیہ کی طرف ان حضرات کی رہنمائی کے لئے مزید اشارہ و تصریح کرنا چاہوں گا جو حاملہ بالزنا کےلئے عدت کے قائل نہیں ہیں اور اس سلسلے میں وارد احادیث و جزئیات فقہیہ کو اطلاق پر محمول کرکے اپنے اس موقف کی اشاعت کرتے ہیں جو خطاء فاحش کے مترادف اور گناہ عظیم کی اشاعت کا باعث ہے۔جیسے فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
لَا تَجِبُ الْعِدَّةُ عَلَى الزَّانِيَةِ وَهَذَا قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَمُحَمَّدٍ رَحِمَهُمَا اللَّهُ تَعَالَى كَذَا فِي شَرْحِ الطَّحَاوِيِّ.
( كِتَابُ الطَّلَاقِ، الْبَابُ الثَّالِثَ عَشَرَ فِي الْعِدَّةِ، ١ / ٥٢٦، ط: دار الفكر)
اورمختصر اختلاف العلماء لأبي جعفر الطحاوي ج٢ص٣٢٧ مطبوعہ دار البشائر الإسلامية – بيروت میں ہے:
فِي الزَّانِيَة هَل عَلَيْهَا عدَّة؟قَالَ أَبُو حنيفَة فِي رجل رأى امْرَأَة تَزني فَتَزَوجهَا فَلهُ أَن يَطَأهَا قبل أَن يَسْتَبْرِئهَا وَقَالَ مُحَمَّد لَا أحب أَن يَطَأهَا حَتَّى يَسْتَبْرِئهَا فَإِن تزوج امْرَأَة وَبهَا حمل من زنا جَازَ النِّكَاح وَلَايَطَأهَا حَتَّى تضع.
اور بدائع الصنائع میں ہے:
وَلَا عِدَّةَ عَلَى الزَّانِيَةِ حَامِلًا كَانَتْ أَوْ غَيْرَ حَامِلٍ؛ لِأَنَّ الزِّنَا لَا يَتَعَلَّقُ بِهِ ثُبُوتُ النَّسَبِ.
( كتاب الطلاق، فَصْلٌ فِي تَوَابِعِ الطَّلَاقِ، ٣ / ١٩٢، ط: دار الكتب العلمية)
تو میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے کہتا ہوں کہ جن آحادیث و فقہی جزئیات مذکورہ بالا میں حاملہ بالزنا سے عدت کی نفی کی گئی ہے تو یہ اس صورت میں ہے جب زنا سے حاملہ عورت کسی کے نکاح میں نہ ہو،کیونکہ اس صورت میں اگرچہ زنا جیسے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا گیا ہے مگر نکاح میں نہ ہونے کی وجہ سے اس پر عدت نہیں ہے۔اس لئے کہ محل عدت ہے ہی نہیں تو عدت کا حکم کیوں کر لگایا جائے گا۔یہی مستفاد اوپر پیش کردہ فتویٰ اعلیٰ حضرت کا بھی اور دیگر کتب فقہ کی عبارت کا۔
واللہ تعالیٰ اعلم