حضور شیرنیپال اور رد پھلواریت

حضور شیرنیپال اور رد پھلواریت :

بہار ونیپال میں پھلواریت کا فتنہ بڑی تیزی سے پھیل رہا تھا،پیری مریدی کے نام پر پھلواریت کو فروغ دی جارہی تھی اور اس میٹھے طریقے سے بھولے بھالے سنی مسلمانوں کو اپنے دام مکر و فریب میں پھنسایا جارہا تھا۔اس لئے ضرورت تھی کہ اس بڑھتے فتنہ کو قبل از وقت روکا جائے،گمراہیت کے اس اژدہا کو کچل دیا جائے ،مگر ملک نیپال میں عملی طور پر کسی کی پیش رفت نہیں ہوئی ، اللہ کی رحمتیں نازل ہوں حضور شیرنیپال علیہ الرحمہ کی تربت اطہر پر جنہوں نے زمانہ طالب علمی ہی سے پھلواریت کی اصلیت ،حقیقت اوراس کے افکار و عقائد کی تحقیق کرنی شروع کردی اور بعد فراغت اس کے استیصال کے لئے کمربستہ ہوگئے۔پوری تندہی،جواب دہی اور جرأت و بہادری کے ساتھ اس فتنہ کا مقابلہ کرنے لگے اور اس کا بائکاٹ اور پھلواری پیروں سے جڑے لوگوں کو گمراہیت کی دلدل سے نکالنے لگے۔ہندوستان کے اکابر علما سے رابطہ کرکے ،فتاویٰ منگوا کر ،جلسہ و محافل کرکے ،تقریریں کرکے اور فتویٰ کے ذریعہ اس عظیم فتنہ کی بیخ کنی کرنے لگے۔فتنہ پھلواریت کے خلاف ایک تحریک کا آغاز کیا اور پھر اہل حق علما نے بھی آپ کے اس تحریک اور مشن کا ساتھ دیا ،آپ کو سراہا اور آپ کے فتویٰ کی حمایت و تصدیق کی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ملک نیپال میں اس فتنہ کو پروان چڑھنے سے روک دیا ،اس کی جڑکو اکھاڑ پھینکا اور جہاں جہاں وہ فتنہ پیر جماچکا تھا آپ نے مسلک اعلیٰ حضرت کا پرچم لہرادیا۔
پھلواریت کا رد آپ کی ہر تقریر کا حصہ ہوتا ،بلکہ یوں کہا جائے کہ پوری حیات دیگر فتنہ اورفرقہ کے خلاف محاذ آرائی کے ساتھ فتنہ پھلواریت کے خلاف قلمی اور تقریری جنگ آرائی کی اور فاتح کی حیثیت سے سنیت کا پرچم بلند کرتے اور سرخرو ہوتے رہے۔1393؁ ھ میں ملک نیپال میں اپنی نوعیت کا پہلا جلسہ کروایا ،جس میں ہند و نیپال کے درجنوں علما و مشائخ اور ہزاروں کی تعداد میں عوام اہل سنت نے شرکت کی۔حضور سید العلما علیہ الرحمہ ،مفتی سید عارف میاں رضوی علیہ الرحمہ ،حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ ،شمس الاولیا علیہ الرحمہ ،امین شریعت مفتی اعظم ہالینڈ مفتی عبدالواجد علیہ الرحمہ اور بھی دیگر مشہور و معروف اور علما و مشائخ شریک تھے۔اس جلسہ میں پھلواریت کے رد میں تقریریں ہوئیں،عوام اہل سنت کو پھلواریت سے دور رہنے کی ہدایت و نصیحت کی گئی ،پھلواری پیروں کی صحبت بد سے بچنے کی تلقین کی گئی اور سنی صحیح العقیدہ پیر طریقت کے ہاتھوں پر بیعت ہونے پر ابھارا گیا ۔بلکہ کثیر تعداد میں عوام اہل سنت نے حضور سیدالعلما علیہ الرحمہ کے مقدس ہاتھوں پر لوگوں نے بیعت کی اور پھلواریت کی بیعت بھی توڑدی اور اس سے توبہ بھی کی۔جس سے وہ لوگ بوکھلاہٹ کے شکار بھی ہوگئے جو ملک نیپال میں پھلواریت کے مبلغ و حامی تھے۔مختصر یہ کہ آپ نے فتنہ پھلواریت کو روکنے میں ایک ذرہ کوتاہی نہیں کی،جگہ جگہ تقریر پھلواریت کے خلاف کی ، اپنے تلامذہ کا قافلہ اطراف و اکناف میںروانہ کیا اور فتویٰ کے شعلوں سے خرمن پھلواریت کو خاکستر کرنے کی سعی بلیغ کی۔
پھلواریت کے ٹھیکہ داروں اور عرس و چادر و گاگر کے نام پر اپنی پیری مریدی کا بازار گرام کرکے اپنے ظاہر ی وضع و قطع اور اعتقادی سیاہ چہرے پر ظاہری سفید لبادہ اوڑھے اشخاص کی فہرست میں کئی ایک نام پھلواری پیروں اور ٹھگوں کے آتے ہیں ، جن کی فکر و نظر اور اعتقادی غلط رویوں کو حضور شیرنیپال علیہ الرحمہ نے انہیں پھلواری پیروں کے یہاں سے نکلنے اور شائع ہونے والے رسائل و کتب کی روشنی میں طشت ازبام کیا ہے اور ان پر حکم شرعی بھی عوام اہل سنت کی رہنمائی کے لئے دلائل کی روشنی میں واضح فرمادئے ہیں۔پیران پھلواری میں سے جس کے بارے میں بھی آپ نے لکھا دلائل کے ساتھ لکھا ،انہیں کے یہاں سے شائع ہونے والی کتابوں میں چھپے ہوئے عقائد و افکار اور نظریات کی روشنی میں لکھا اور بہار کے معتمد و مستند علما و مشائخ اور مفتیان کرام کی شہادت کی روشنی میں لکھا۔چنانچہ آپ اپنے ایک فتویٰ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’پھرمجھے مفتی عبدالواجدصاحب مفتی ادارہ شرعیہ بہارنے بتایاکہ خانقاہ مجیبیہ کے سجادہ نشین شاہ محی الدین کا بھی یہ مسلک تھا ،وہ بھی علمائے دیوبند کی تکفیر کے قائل نہیں تھے۔ شاہ بدرالدین کے بارے میں مولانا عبیدالرحمن پوکھریروی نے بتایاکہ میرے سامنے شاہ بدرالدین سے علمائے دیوبند کے بارے میں دریافت کیاگیاتو جواب دیاکہ میں تفریق بین المسلمین نہیں چاہتا۔اخیرین (شاہ محی الدین،شاہ بدرالدین)کے بارے میں مولانا مطیع الرحمن صاحب سابق مفتی ادارہ شرعیہ کی زبانی معلوم ہوا کہ حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ والرضوان فرماتے تھے کہ یہ بھی بگڑے ہوئے میں تھایا بگاڑ بدرالدین سے شروع ہوا۔ دیگرمعتبرذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علمائے پھلواروی علمائے دیوبند وفضلاء ندوہ ووہابیہ کے پیچھے نماز بشوق اداکرتے ہیں اور ان سے راہ ورسم بھی رکھتے ہیں اور رشتہ نکاح بھی کرتے ہیں اور ان کے ہاتھ کاذبیحہ بھی کھاتے ہیں۔‘‘

(فتاویٰ برکات حصہ چہارم)

اپنے ایک فتویٰ میں پھلواریوں کے حوالے تحریر فرماتے ہیں:
’’رہا پھلواری والوں کا حال تو یہ بھی انہیں اشخاص مذکورہ کے ساتھی پراتی ہیں۔ انہیں کی طرح یہ بھی دائرۂ اسلام سے خارج ہیں۔ یہ لوگ پیری، مریدی کے ہرگز ہرگز لائق نہیں۔ ان سے دانستہ مرید ہونا کافر ہونا ہے۔ معاذ اللہ! و اﷲ تعالیٰ اعلم بالصواب و منہ الہدایۃ و الرشاد۔‘‘(فتاویٰ برکات حصہ چہارم)
سفر رد پھلواریت کے حوالے سے آپ اسی فتویٰ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’پہلی دفعہ ۱۳۸۴؁ یا۱۳۸۵؁ ہجری میں وہاں پہنچا عون احمد کے والد سے ملاکہ اس زمانہ میں وہی وہاں ہر اعتبار سے فائق مانے جاتے تھے۔ ان سے گفتگوکی ابتدایوں ہوئی ان سے پوچھا گیا کہ بریلی حضرات اس خانقاہ سے کیوں چڑھ رکھتے ہیں؟ اس کا جواب بڑے طمطراق کے ساتھ یہ کہدیاکہ بریلی حضرات ہم سے ہی نہیں بلکہ اپنے آپ سے بھی چڑھ رکھتے ہیں اور میں بتائوں کہ وہ اس خانقاہ سے کیوں چڑھ رکھتے ہیں اس لیے کہ ہم لوگ علمائے دیوبند کی تکفیر نہیں کرتے۔ اس کے بعد راقم السطور کو بولنے کاموقع ملا۔ میں نے کہاجب علمائے دیوبند نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی شان پاک میں گستاخی کی ہے، تو ہین صریح کے وہ مرتکب ہوئے ہیں توپھر آپ ان کی تکفیرنہیں کرتے تو اچھانہیں کرتے۔ اس پر وہ بولے توہین رسول کہاں کفر ہے قرآن وحدیث سے دلیل لائیے؟ آج کے کسی مفتی یاعالم کی بات ہرگزمیں تسلیم نہیں کرتا اور نہ کسی فقیہ و مجتہدکی۔
اول میں نے قرآن شریف کی چندآیتیں اس مسئلہ سے متعلق پیش کیں ۔ پھر حدیث پاک سنائی، مگرسب کے جواب میں یہی کہتے رہے کہ یہ دلیل قطعی نہیںہے۔ میں نے دیکھا ضداور ہٹ پرتلاہواہے تو میں نے اخیر میںکہاکہ مجھے معلوم ہوگیاکہ آپ لوگوں کے نزدیک خداورسول کی توہین کرنے والاکافرنہیں ہے۔اس پروہ بولاکہ میں نے کب کہہ دیاکہ خداکی بھی توہین کرنے والاکافرنہیں ہے؟ میں نے کہااس لیے کہ دلیل قطعی نہیں ہے۔ جواباً بولاکہ کیالاالہ الا اللہ دلیل قطعی نہیںکہ یہ پڑھے اور اللہ کی توہین کرے تو وہ اس کی الوہیت کو ماننے والا ہی نہیں ہے؟ میں نے کہااس کادوسرا جزمحمد رسول اللہ ہے توجویہ پڑھے اور رسول کی توہین کرے تووہ اس کی رسالت کو ماننے والا ہی نہیں ہی ۔فبھت الذی کفر۔
دوبارہ دو سرے سال عون احمدسے ملا، اسی عنوان پر گفتگوشروع کی توکہاگذشتہ سال والد صاحب سے آپ کی گفتگوہوچکی ہے۔ میں نے کہاہوئی توضرورہے مگرانہوں نے کہاکہ توہین رسول کفرنہیں ہے معاذ اللہ! توعون صاحب بولے کہ نہیں توہین رسول کفرہے مگرہم لوگ علمائے دیوبندکی تکفیرکے قائل نہیں۔ ان کی عبارتیں جوان کی کتابوں میں ہیں گندی کہہ سکتے ہیں کفری نہیں اور میرے نزدیک اس کی تاویل ہے۔ میں نے کہاکیاتاویل ہے؟توکہامیرے پاس اتنی فرصت نہیں۔ پھر میں نے کہاعلمائے دیوبندکی ان عبارتوں کو اپنے ماہنامہ المجیب میں لکھیں اور یہ بھی لکھ دیں کہ ان کی یہ عبارتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان پاک میں گندی ہیں۔ تو جواب دیاکہ یہ میرے سلف کاطریقہ نہ رہاہے اور ہم لوگ کسی کے پیچھے نہیں پڑتے۔
تیسری بار پھر پھلواری گیا، اس مرتبہ فردالحسن سے اس مسئلہ پرتبادلہ خیال ہوا۔ میں نے پوچھاکہ اس خانقاہ کا عقائددیوبند کے بارے میں موقف کیاہے؟ جواب دیاکہ علمائے دیوبندتفریط کی طرف گئے اور علمائے بریلوی افراط کی طرف اور ’’خیرالاموراوساطہا‘‘ میرامسلک ہے اور یہی مسلک میرے سلف کا رہاہے۔‘‘(فتاویٰ برکات حصہ4)
حضور شیرنیپال علیہ الرحمہ نے اپنے اسی مبارک و قاطع پھلواریت فتویٰ کے اخیر کے تین پیرا گراف میں تحریر فرماتے ہیں:
’’بات دراصل یہ ہے کہ اہل پھلواری صلح کل ہیں کھلی توہین کرنے والا خواہ اشرف علی ہویا گنگوہی یانانوتوی یاانبیٹھی یادہلوی یا رائے بریلوی، سب(پھلواری کے نزدیک) مسلمان ہیں اور خدمت حدیث اور اشاعت علوم دینیہ کے کرنے والے۔ جیسا کہ ان کی کتابوں میں مذکورہے، اخیرین تو ان کے نزدیک پکے شہید ہیںکمالایخفی علی الناظر فی کتبھم۔حالانکہ توہین رسول کرنے والا ایسا کافر ہے کہ جو اس کے کفرمیں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔
درمختار،ردالمحتار، شفاشریف وغیرہ میں یہ مسئلہ مصرح ہے اس پر امت کااجماع ہے۔ اقوال پر مطلع ہوکر عدم تکفیر کے قائلین پر خواہ مجیبی ہویاامانی، پھلواری ہویاچھپراوی من شک فی کفرھم وعذابھم فقدکفرکاتازیانہ سب کو رسیدہوگا۔ سال گزشتہ ایک مجیبی پر فتویٰ حضرت علامہ اختر رضاخاں جانشین حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ والرضوان اور حضرت علامہ مفتی شریف الحق صاحب نائب مفتی اعظم ہنددامت برکاتہم القدسیہ نے صادر فرمایاہے کہ نہ اس کی نماز نماز،نہ اس کے پیچھے کسی کی نماز ، اس کے پیچھے نماز پڑھنانہ پڑھنے کے برابر بلکہ اس سے بدتر اور اس کے عقائد سے واقف ہوکر پیربنایاہے توکافر۔ جنوری ۱۹۸۸؁ء کے ماہنامہ اعلیٰ حضرت اور دسمبر ۱۹۸۷؁ء کے ماہنامہ المسعودمیں مجیبیوں سے متعلق فتویٰ شائع ہوچکاہے۔ان شاء المولیٰ تعالیٰ وتقدس حق کا آفتاب آب و تاب کے ساتھ چمک اٹھے گا اور باطل کا وہم وگما ن دھواں بن کے ا ڑ جائے گا۔ ان کے علاوہ مفتی قدرت اللہ، مفتی عبدالحفیظ صاحب ادارہ شرعیہ پٹنہ بہار کے فتاوے مجیبوں پھلواریوں کے خلاف میرے جامعہ میں موجود ہیں، جن پر ہندوستان کے تقریباً سارے مفتیوں کے دستخط ثبت ہیں۔ آپ کے لئے اور ہر ہوشمند کے لئے جتنا مذکور ہوئے کافی وافی ہیں۔ شخص مذکور فی السوال کے پیچھے ہرگز نہ نماز جائز اورنہ اس سے بچوں کوتعلیم دلانا۔
جن لوگوں نے حضرت علامہ کے متعلق ایساکہاہے علامہ پرافتراء کیاہے، کذب بیانی سے کام لیاہے۔ وہ درپردہ مجیبیوں کی حمایت کررہے ہیں۔ کیا معاذ اللہ علامہ کفرپوشی کریں گے؟ حدیث شریف میں ہے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب بدمذہبی پھیلے یافتنے ظاہرہوں اور عالم اپنے علم کو ظاہر نہ کرے تو اللہ تعالیٰ نہ اس کافرض قبول فرمائے گا، نہ نفل۔ پھلواریوں کی بدمذہبی اور فتنے وہابیوں دیوبندیوں کی بدمذہبی اور فتنے سے ہزار گونہ زیادہ ہیں۔ ہر شخص پراس سے جدا رہنا فرض ہے اور عالموں پر یہ بھی فرض ہے کہ عوام الناس کو ان کے شرسے بچائے۔ علماء پرافتراکرنے والے ناعاقبت اندیش ہیں۔یہ بات کوئی جاہل سے جاہل بھی کہنا گوارہ نہ کرے گاکہ مجیبی لوگ معاذ اللہ مست ہیں، گویا مرفوع القلم ہیں، حکم شرع سے بالاترنعوذ باللہ  من  ذالک۔اگر یہ بات مجیبیوں کے لیے کہی جائے گی تو پھر دیوبندیوں، وہابیوں،قادیانیوں اور رافضیوں، خارجیوں، غیرمقلدوں، چکڑالویوں، نیچریوں، کافروں، مشرکوں، یہودیوں، عیسائیوں، مجوسیوں کے لیے کیوں نہ کہی جائے گی۔ پھر شریعت کیارہے گی، بچوں کاکھیل جب چاہوبنالو جب چاہوبگاڑلو۔العیاذ باللہ من ہٰذہ الجہالۃ والضلالۃ۔
علامہ نے پھلواروی کے عقائدباطلہ کاذکربار بار کیاہے۔ ان کے خیالات فاسدہ کاتذکرہ حضرت علامہ مولانا سلطان المناظرین سیدالسالکین امین شریعت ادارہ شرعیہ علیہ الرحمۃ والرضوان کی زبانی اپنے کانوں سے میں نے سناہے۔ تاجداراہل سنت حضرت مفتی اعظم ہند اور حضور سیدالعلما سندالحکماء آفتاب مارہرہ رضی اللہ عنہم نے بے شمارمجیبیوں کو ان کے عقائد باطلہ سے توبہ کراکر اپنی اپنی غلامی میں داخل فرمایاہے، کیوں کہ مجیبی پھلواری ساری ناری جماعتوں سے اضرہے اور بدتر۔ اس سے بچنے اور بچانے کی سخت ضرورت ہے۔ یہ آستین کے زہریلے سانپ ہیں۔ اگر کبھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا توایک مجیبی کاخط دیکھائوں گادیکھنے کے بعد آپ خود فیصلہ فرمالیں گے کہ ان لوگوں کو اہل سنت (بریلوی) سے کس قدربغض وعناد ہے اور مذہب حق کونیست ونابود کرنے کا کیسا نرالا ان کاپروگرام ہے۔ خداوند کریم ان کے اور ان کے حامیوں بلکہ سارے بے دینوں کے شرسے مسلمانوں کو اپنے حبیب رئوف و رحیم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے صدقہ وطفیل محفوظ ومامون رکھے۔آمین آمین آمین بجاہ سیدالمرسلین علیہ واٰلہ واصحابہ اجمعین افضل الصلوات والتسلیمات یاارحم الرٰحمین ویارب العٰلمین۔‘‘
(فتاویٰ برکات حصہ چہارم)
اب چند باتیں شاہ امان اللہ کی فکری بے راہ روی اور بد اعتقادی کے حوالے سے کچھ حیطہ تحریر میں لانے کی کوشش کر رہا ہوں ،کیوںکہ ان کے الجھے زلفوں کے اسیر یہاں پائے جاتے تھے اور علاقہ میں ان کا آنا جانا بھی رہتا تھا اور یہاں کے ایک دو فرد ان سے لوگوں کو بیعت ہونے کی رغبت دلاتے تھے۔شاہ امان کا نظریہ کیا تھا اس سلسلے میں درج ذیل اقتباسات ملاحظہ کریں:
٭ہم لوگ نہ تو دیوبندی ہیں نہ بریلوی ہم لوگ ہمیشہ سے دونوں جماعت کے علماء کا احترام کرتے ہیں ہم لوگوں کا عقیدہ وہی ہے جو ہم لوگوں کے سلف صالحین کا رہا ہے ،ہمارا ذی علم خاندان بریلویوں اور دیوبندیوں کے وجود سے پہلے ہے۔
(سوانح شاہ امان اللہ ص۳۴۲ مطبوعہ ۱۹۸۹؁ ء)
٭ہمارے حضرت (شاہ امان اللہ) نہ دیوبندی تھے نہ بریلوی ،فقہی طور پر ان دونوں میں سے کسی کے مسلک او ر طرز عمل سے آپ کو کلیۃاتفاق نہ تھا۔

(سوانح شاہ امان اللہ ص ۳۲۸)
٭ہمارے حضرت اقد س مولانا شاہ امان اللہ قادری سے بریلوی علماء کا یہی اصرار (فتاوی حسام الحرمین پر تصدیق کا) ظلم کی حد تک رہا لیکن آپ اپنے مسلک (عدم تکفیر دیابنہ،کف لسان،صلح کلیت) پر قائم رہے۔(سوانح شاہ امان اللہ ص ۳۲۸)
٭ستم یہ ہے کہ بریلوی حضرات اس بات پر ہمیشہ مصر رہے کہ علمائے پھلواری ان کے فتاوی پر مہر تصدیق ثبت کریں اور اپنے سنی ہونے کے لئے مولانا احمد رضا خاں نیز ان کے متبعین سے سند حاصل کریں۔
(سوانح شاہ امان اللہ ص ۳۲۸ بحوالہ مفتی اعظم نیپال )
ان اقتباسات سے خوب ظاہر ہے کہ ان کا عقیدہ کیا تھا،ان کے نزدیک علمائے اہل سنت جو ماانا علیہ واصحابی کےمصداق ہیں اور وہابی دونوں قابل تعظیم ہیں ،ان پیشوایان دیابنہ کی تکفیر کے قائل نہیں تھے بلکہ اس معاملے میں وہ کف لسان کرتے تھے یہ جانتے ہوئے کہ دیوبندیوں کا عقیدہ کفریہ ہے۔ان کے اسی عقیدہ کے سبب علمانے ان پر کفر کا فتویٰ دیا اور من شک فی کفرہ وعذابہ کا تازیانہ انہیں بھی رسید کیا اور جو ان کے اس عقیدہ سے باخبر ہوکر ان سے اتفاق رکھے،اور اس کی تکفیر میں شک و تردد کرے اس کا بھی یہی حکم ہے ۔یہاں کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ ان کا نظریہ نہیں تھا بلکہ دوسرے افراد نے جو موقف ان کی طرف منسوب کیا ہے غلط ہے مگر یہاں یہ عذر بھی نہیں چلے گا کیونکہ ان کی حیات ہی میں اس طرح کے موقف باطل کتاب اور خانقاہی رسالہ المجیب میں چھپ چکاتھا جس پر ان کی طرف سے کوئی رد عمل نہیں آنے پر من شک فی کفرہ فقد کفر کا حکم سنایا گیا۔ان کی وفات کے بعد تعزیت لکھنے والے علما کا اپنی تعزیت سے رجوع کرنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ شاہ امان کا عقیدہ وہی تھا جو ان کی طرف سوانح شاہ امان میں منسوب ہے ،عدم علم کا عذر جو فیصل بورڈ کے مقدمہ میں ہے وہ بھی کالعدم ٹھہرےکہ اس سلسلے میں خود فیصل بورڈ کو کچھ علم نہیں تھاتو پھر یہ صورتیں نکالنا یقینی تھا مگر جنہیں شاہ امان کے بارے میں علم تھا ان کے نزدیک یہ صورت مقبول نہیں ۔
مفتی کوثر حسن رضوی تحریر فرماتے ہیں:
’’شاہ امان اللہ صاحب کی طرف جو مسلک منسوب ہے وہ عدم تکفیر دیا بنہ ہے اور ان کی طرف اس کی مسلک کی نسبت کا ثبوت بطور تواتر ہے کہ ان کے مریدین مجازین خلفاء و جانشین ان کے اہل خانہ و خانقاہ چھوٹے بڑے عالم جاہل سب کے سب یک زبان و متفق اللسان یہی بیا ن دیتے رہے کہ ان کا مسلک عدم تکفیر دیابنہ ہے ۔ان کے چچا زاد بھائی جناب عون احمد صاحب نے جو شاہ محی الدین کے مرید خلیفہ اور حقیقی بھتیجا ہیں شاہ امان للہ صاحب کے جانشینی کے بعد ان کی زندگی ہی میں ان کے والد اور مرشد و مقتد ا جناب شاہ محی الدین صاحب کا مسلک چھاپ کر عام مشہور کر دیا ۔‘‘(احکام نورانی بر امان و امانی ص ۲۲)
اسی کتاب میں مذکور ہے:
’’جناب امان للہ صاحب سے علماء اہلسنت نے مواخذات کیے، رد شائع کیے، تحریری مناظرے کی دعوت دی، اشاعت رد و مواخذات و دعوت مناظرہ کے بعد وہ سالہا سال زندہ رہے، لیکن نہ تو ان سے کسی رد کا جواب بن پڑا اور نہ تحریری مناظرے میں بیٹھ کر گفتگو کرنے کی ہمت ہوئی اور نہ ہی اس نسبت سے انھوں نے انکار کیا۔ جب سے آج تک تو یہ ثبوت یقینی ہے کہ امان للہ صاحب کا مسلک عدم تکفیر دیابنہ ہے ،اب دیو بندیوں کی کفری ملعون طشت از بام وجہ نزاع مابین اہلسنت و دیابنہ عبارتوں پر آگاہی کے علم یقینی میں دربارئہ کاف لسان مشہور عدم کے احتمال کو متحقق سنی صحیح العقیدہ قرار دینے کا بہانہ قائم کرنا محض مکا برانہ ادعا ہے جو اس قلب سے متصور نہیں جسے الحب فی اللہ والبغض فی اللہ سے حصہ ملا۔‘‘(احکام نورانی بر امان و امانی ص۲۶)
نیز ان کے اس باطل عقیدہ و نظریہ کے شاہد ان کے یہاں پڑھنے والے ہوشمند طلبہ بھی ہیں اور مزے کی بات یہ کہ مفتی اعظم کانپور مفتی رفاقت حسین بھی۔چنانچہ مفتی ابو القیس مصباحی دارالعلوم امجدیہ ناگپور مہاراشٹر۲۸۔ربیع النور۱۴۱۷؁ھ اپنے سابق فتویٰ سے رجوع کرنے کے بعدشاہ امان کے تعلق سے دوسرے وضاحتی فتویٰ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’حضرت العلام مفتی محمد اختر رضا خان صاحب قبلہ ازہری بریلی شریف نے عرس رضوی نوری کے موقع پر حضور مفتی اعظم مہاراشٹر سے بریلی شریف میں یہ بیان فرمایا کہ حضرت مفتی رفاقت حسین صاحب اشرفی مفتی اعظم کانپور علیہ الرحمہ نے یہ بیان کیا تھا کہ امان اللہ جانتے ہوئے مرتدین کی تکفیر کا قائل نہ تھا۔‘‘
(مفتی اعظم نیپال حیات و خدمات)
اسی فتویٰ میں یہ بھی فرماتے ہیں کہ:
’’امسال عرس رضوی نوری سے قبل حضرت علامہ مفتی حبیب یار خان صاحب اندور جب ناگپور آئے تو حضور مفتی اعظم مہاراشٹر سے انہوں نے یہ بیان کیا کہ نیپال میں میری ملاقات مولانا عبدالجبار صاحب منظری ناظم اعلی الجامعۃ الاسلامیہ برکاتیہ عربی کالج نیپال سے ہوئی تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں امان اللہ صاحب پھلواری کا مرید تھا اور خانقاہ مجیبیہ میں زیر تعلیم تھا، جب اما ن اللہ صاحب سے یہ کہتے سنا کہ بریلوی افراط کے شکار ہیں اور دیو بندی تفریط کے اور بزگان پھلوری کا عمل خیر الامور اوساطھا پر رہا،اس لئے میں کسی کلمہ گو کی تکفیر نہیں کر تا، ہاں علماء دیوبند کی عبارتیں گندی اور پھوہڑہیں ۔میں ان لوگوں کو خاطی کہتاہوں تومیںنے امان اللہ صاحب کا یہ عقیدہ ومسلک خود ان کی زبان سے سن کر بریلی شریف چلاگیا اور بعد میں ان کی بیعت توڑدی ۔اور حضور سید العلماء سے بیعت ہوگیا ۔لہٰذا میں شہادت دیتا ہوں کہ امان اللہ صاحب علماء دیو بند کی کفری عبارت پر مطلع ہونے کے باوجود ان کو اور ان کے متبعین کو مسلمان سمجھتے تھے ۔‘‘(مفتی اعظم نیپال حیات و خدمات)
حضرت شیرنیپال فرماتے ہیں کہ:
’’مولانا قمر الہدی قائل رضوی امام وخطیب مدینہ مسجدساکن لہوریا شریف سیتا مڑھی بہار فاضل جامعہ منظر اسلام بریلی شریف نے میرے سامنے گواہی دی کہ میں نے اور چند اشخاص نے شاہ امان اللہ کی بیعت اس لئے توڑدی کہ وہ دیو بندیوں کی تکفیر کا قا ئل نہیں تھا ،مجھ سے کہا کہ دیوبندی بھی امام اعظم کے پیرو ہیں،میں دیو بندیو ں کو مسلمان سمجھتا ہوں ،آپ میرے عقیدے پر چلیں، آپ میرے مرید ہیں آپ کو میری پیروی لازم اور ضروری ہے۔ میں دیو بندیو ں کے علماء کی اقتداء کرتا ہوں۔‘‘
اور پھر اپنا آنکھوں دیکھا حال اس طرح بیان فرماتے ہیں:
’’آج سے پچیس سال پہلے کئی بار خانقاہ پھلواری ان کے عقائد معلوم کر نے کی غر ض سے گیا شاہ امان کے عم وخسر اور عون احمد کے والد شاہ نظام الد ین سے ملا، علماء دیو بند کے سلسلہ میں گفتگو ہوئی تو بتایا کہ ہم لوگ علماء دیو بند کی تکفیر کے قائل نہیں ۔پھر عون احمد سے ملا دیو بندیو ں کی کفری عبارتوں کے بارے میں دریافت کرنے پر جواب دیا کہ ہم علماء دیو بند کی تکفیر نہیںکرتے اور ان کی عبارتو ں کو گندی کہتے ہیں۔
پھر شاہ فرد الحسن ملاقات کی علماء دیو بندکے بارے میں پوچھا توجواب میں کہاکہ علماء بریلوی افراط کی طرف گئے اورعلماء دیوبند تفریط کی طرف گئے اورخیرالامور اوساطھاہمارا مسلک ہے اور ہمارے سلف کا۔‘‘
مولاناعبدالجبار منظری صاحب جو پھلواری کے یہاں پڑھ چکے ہیں اور شاہ امان اور ان کے اعوان کے حالات و عقائد کو بہت قریب سے دیکھ چکے ہیں لکھتے ہیں:
’’لاریب شرعایہ ثابت ہے کہ شاہ امان ، شاہ عون پھلواری وغیرہ ان علماء دیوبند کے کفریات پرمطلع تھے جن علماء دیوبند پر علماء حرمین طیبین نے حسام الحرمین شریف میںنام بنام حکم کفروارتدادنافذ فرما یاہے اسکے باوجودشاہ امان ،شاہ عون احمدپھلواری وغیرہ ان مرتدین کے تکفیر کے قائل نہیںتھے بلکہ وہ انہیںمسلمان سمجھتے تھے اس لئے حضرت العلام مفتی اعظم نیپال قبلہ مد ظلہ العالی نے من شک فی کفرھم وعذابھم فقد کفر کے تحت ان علماء پھلواری پر حکم کفروارتدادنافذ فرماکر اپنی شرعی ذمہ داری پوری کی ہے ۔‘‘
شارح بخاری کا فتویٰ:
شاہ امان کا عقیدہ کیا تھا اور ان پر شرعا کیا حکم عائد ہوتا ہے اب اسے ایک ایسے محقق فقیہ کے قلم روشنی میں ملاحظہ کریں جن کی تحقیق و فتویٰ پر ہمارے اکابر کو بھی ناز تھا اور تمام مفتیان کرام کوا عتماد بھی۔شاہ امان کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں آپ تحریر فرماتے ہیں:
تحقیق سے ثابت ہے کہ شاہ امان اللہ پھلواری دیوبندیوں کے ان چار اکابر کو جنہوں نے ضروریات دین کا انکار کیا ہے اور حضور اقدس ﷺ کی شان اقدس میں گستاخیاں کیں۔یعنی رشید احمد گنگوہی، قاسم نانوتوی، اشرف علی تھانوی ،خلیل احمد انبیٹھوی کو مسلمان نہ صرف مسلمان بلکہ عالم دین بزرگ مانتے تھے ،ان کے ناموں کے ساتھ رحمۃ اللہ لگاتے تھے جب کہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں کفریات بکے ہیں۔جن پر علمائے حل وحرم نے ان کے بارے میں یہ فتویٰ دیا ہے کہ یہ کافر ہیں جو ان کے کفریات پر مطلع ہوکر انہیں کافر نہ کہے وہ خود کافر ہے۔ایسی صورت میں یہ بات واضح ہے کہ امان اللہ صاحب اپنے باپ دادا کی رسم منانے کے طور پر یا اپنی پیری مریدی کے کاروبار کو چمکانے کے لئے عرس نیاز و فاتحہ میلاد وغیرہ کرتے تھے اور اندر اندر ان کاعقیدہ وہی تھا جو دیوبندیوں کا ہے۔انسان بزرگ اسی کو مانتا ہے جو اس کا ہم عقیدہ ہو،ایسی صورت میں امان اللہ پھلواری بلا شبہ کافر و مرتد،دین سے خارج تھے اور ان کا وہی حکم ہے جو دیوبندیوں کا ہے، جو لوگ ان سے مرید ہیں ان کی بیعت صحیح نہیں، ان سب پر واجب ہے کہ بیعت فسخ کردیں اور کسی سنی صحیح العقیدہ جامع شرائط بیعت پیر سے مرید ہوں۔واللہ تعالیٰ اعلم

(فتاویٰ شارح بخاری ج۳ص۵۱۲)

Spread the love

Check Also

FATAWA BARKAT-1

فتاویٰ برکات اول Spread the love

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے