شرک کا عذاب و انجام قرآن و احادیث کی روشنی میں
ابوالعطر محمد عبدالسلام امجدی برکاتی
متھلا بہاری نگر پالیکا،تاراپٹی مغربی محلہ ،دھنوشا(نیپال)
تمام اعما ل میں اور گناہوں کے تمام کاموںمیں سب سے بڑا گناہ اور جہنم میں لیجانے والے سب عملوں میں بدتر و بھیانک گناہ شرک و کفر ، ارتداد اور بدعقیدگی و بدمذہبی ہے کہ مشرکین اور کفار نیز بدمذہبوں اور گستاخانِ رسول کو دوزخ میں سب سے بھیا نک عذاب دیا جائے گا ۔اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں کسی کو ٹھہرانا ،پتھر ،درخت،دریا،پہاڑ اور جانوروں کے سامنے ماتھا ٹیکنا اور انہیں اپنا بھگوان و معبود تصور کرنا یہ بہت بڑا گناہ اور شرک ہے۔اسی طرح کسی غیر مسلم دھامی اوجھا کے پاس جاکر غیر شرعی جھاڑ پھونک کروانا یہ بھی شرک و کفر ہے اور جہنم میں لیجانے والا کام ہے۔
مشرکین کو اللہ تعالیٰ جس عذاب میں مبتلا فرمائے گا ،انہیں اس کا وہم و خیال بھی نہ گزرا ہوگا ۔ جس سخت اور دردناک عذاب میں وہ گرفتار ہوں گے اگر اس سے بچنے کے لئے وہ سب کچھ خرچ کر دیں جو زمین میں ہے بلکہ اس سے دو گنا تو بھی اللہ تعالیٰ کے تیار کردہ بدترین عذاب سے وہ نہیں بچ سکتے ۔اس کے باوجود ا ن سے کوئی فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا، خواہ زمین بھر سونا ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ لَوْ اَنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّ مِثْلَهٗ مَعَهٗ لَافْتَدَوْا بِهٖ مِنْ سُوْٓءِ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ-وَ بَدَا لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ مَا لَمْ یَكُوْنُوْا یَحْتَسِبُوْنَ(47)وَ بَدَا لَهُمْ سَیِّاٰتُ مَا كَسَبُوْا وَ حَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ یَسْتَهْزِءُوْنَ۔(الزمر۴۸)
ترجمہ :اور اگر جو کچھ زمین میں ہے وہ سب اور اس کے ساتھ اس جیسا اوربھی ظالموں کی ملک میں ہوتا تو قیامت کے دن بڑے عذاب سے چھٹکارے کے عوض وہ سب کا سب دیدیتے اور ان کیلئے اللہ کی طرف سے وہ ظاہر ہوگا جس کا انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اور ان پر ان کے کمائے ہوئے برے اعمال کھل گئے اور ان پر وہی آپڑا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔(کنزالعرفان)
مشرکین کی اس حالت سے مسلمانوں کو عبرت لینی چاہئے جو اس آیت کریمہ بیان کی گئی ہے ۔مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ نیک اعمال کی طرف سبقت کریں اور گناہوں سے بچیں اور اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیروں سے ڈرتے رہیں۔تفسیر صراط الجنان میں تفسیر مدار کے حوالے سے ہے:
’’یاد رہے کہ اس آیت میں اگرچہ مشرکین کے لئے وعید کا بیان ہے لیکن اس میں مسلمانوں کے لئے بھی عبرت اور نصیحت ہے اور انہیں بھی چاہئے کہ نیک اعمال کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے رہیں ۔ہمارے بزرگانِ دین اس حوالے سے کس قدر خوفزدہ رہا کرتے تھے اس کی ایک جھلک ملاحظہ ہو،چنانچہ حضرت محمد بن منکدر رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے وصال کا وقت قریب آیا تو آپ گریہ و زاری کرنے لگے ۔ لوگوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا’’میرے پیش ِنظرقرآنِ پاک کی ایک آیت ہے جس کی وجہ سے میں بہت خوفزدہ ہوں ،پھر آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے یہی آیت تلاوت کی اور فرمایا’’ مجھے اس بات کا خوف ہے کہ جنہیں میں نیکیاں شمار کر رہا ہوں کہیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے لئے بدیاں بن کر نہ ظاہر ہو جائیں‘‘ ۔
(مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ: ۴۷، ص۱۰۴۱)
کفرو شرک اور منافقت و مدا ہنت کے گرداب میں پھنسے ان بدبختوں کی حالت یہ ہو گی کہ انہیں او ندھے منہ جہنم رسید کر دیا جائے گا ۔ جہنم سخت غیظ و غضب میں جوش مارتے ہوئے اور چنگھاڑتے ہوئے ان کا استقبال کرے گا ،انہیں زنجیروں میں جکڑ کر تنگ جگہوں میں پھینک دیا جائے گا جہاں یہ نہ حرکت کر سکیں گے نہ کسی سے مدد طلب کر سکیں گے اور نہ ہی رہائی پا سکیں گے ۔اللہ تبارک و تعالیٰ فرما تا ہے:
’’وَمَنْ جَائَ بِا لسَّیِّئَۃِ فَکُبَّتْ وُ جُوْ ھُھُمْ فِی النَّارِ ھَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۔ (النمل ۹۰)
ترجمہ: اور جوبرائی (شرک) لے کر آئے گاتو ان کے منہ کے بل اوندھا پھینک دیا جائے گا آگ میں ،کیا تمہیں ملے گا اس کے سوا جو تم عمل کیا کرتے تھے ۔
یعنی تمہارے عمل کا بدلہ تمہیں دیا جائے گا ،جس کی برائیاں اس کی نیکیو ں پر بھاری ہوں گی تو ہر ایک کو اس کی برائیوں کے مطابق سزا ملے گی ۔ اس آیت میں ’سَّیِّئَۃ (برائی) سے مراد شرک ہے ۔ تو مطلب یہ ہو گا کہ مشرکین کو دائمی سزا ملے گی جس سے نجات نہیں ملے گی ۔
ایک جگہ ارشاد ہوا :
وَ اِذَا اُلْقُوْا مِنْهَا مَكَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیْنَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُوْرًاﭤ۔لَا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّ ادْعُوْا ثُبُوْرًا كَثِیْرًا(الفرقان 14-15)
ترجمہــــــ:اور جب انہیں پھینکا جائے گا اس آگ میں تنگ جگہ سے زنجیروں میں جکڑ کر تو پکاریں گے وہاں موت کو ،(ان سے کہا جائے گا)نہ مانگو آج ایک موت بلکہ مانگو بہت سی موتیں ۔
اس آیت کے بارے میں رسول خدا ﷺ سے دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا:قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے ،انہیں دوزخ میں اس طرح ٹھونسا جائے گا جیسے کیل دیوار میں گاڑی جاتی ہے۔ (در منثور )
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ بیا ن کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :سب سے پہلے ابلیس کو آگ کا لباس پہنایا جائے گا ،وہ اسے پیشانی پر رکھ کر پیچھے سے گھسیٹتا ہو ا اور اپنی ذریت (چیلوں )کو پیچھے لگا ئے ہوئے اور ہائے موت !ہا ئے موت !پکارتا ہوا دوڑتا ہوا چلا جائے گا ۔جہنم پر پہنچ کر اس کے ہائے موت !پکارنے پر اس کے سبھی ساتھی بھی پکاریں گے ’’ ہائے موت !‘‘ ا س وقت انہیں کہا جائے گا کہ آج ایک موت کو نہ پکارو بلکہ بہت سی موتوں کو پکارو ۔
(مسند احمد بن حنبل ج۳ص۱۵۲،در منثور ج۵ص۱۱۷،خازن ج۳ص۳۱۰)
حدیث :(۱) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ :
ان المشرکین اتو ا رسو ل اللّٰہ ﷺفقالو ا ’’ ارأیت ما یعبدون من دون اللہ این ھم ؟ قال ’’ فی النار ،،قالو اوالشمس والقمر ؟قال ’’ والشمس والقمر ،، قالو ا فعیسیٰ بن مریم ؟فانزل اللّٰہ ’’ إِنْ هُوَ إِلَّا عَبْدٌ أَنْعَمْنَا عَلَيْهِ وَجَعَلْنَاهُ مَثَلًا لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ،، (زخرف ۵۹)
(درمنثور ج ۵ص۷۲۹)
ترجمہ :مشرکین رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ ان کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جو اللہ تعا لیٰ کے سوا کو پو جتے ہیں وہ کہاں ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا ِ’’ دوزخ میں،،تو ان لو گوں نے عرض کیا عیسیٰ ابن مریم(علیہ و علیہا السلام )بھی ؟ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما ئی’’ ترجمہ:وہ تو نہیں مگر ایک بندہ جس پر ہم نے احسان فرمایا اور اسے ہم نے بنی اسرائیل کے لئے نمونہ بنایا ،،(کنز الایمان )
وضاحت :جو گناہ انسان سے سرزد ہوتے ہیں خواہ سہواََہوں یا عمداََ،وہ دو طرح کے ہوتے ہیں:
(۱)صغیرہ :جو کبیرہ گناہ سے ہلکا ہوتاہے۔ یہ نوافل ،صداقات و خیرات اور دوسرے اچھے کاموں سے معاف کردیا جاتا ہے۔
(۲)کبیرہ :جس کے ارتکاب پر قرآن و سنت میں و عید وارد ہو۔گناہ کبیرہ معاف نہیں ہوتا ہے تا آنکہ اس کے کرنے والاندامت و شرمندگی کے احساس کے ساتھ بصدق دل توبہ کرلے اور آئندہ نہ کرنے کا عہدو پیمان کر لے۔جب بندہ گناہ کبیرہ سے توبہ کر لیتا ہے تو یہ گناہ بھی معاف کر دیا جاتا ہے۔
حضو ر علیہ السلام نے فرمایا:التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ‘‘ گناہوں سے توبہ کرلینے والا گناہوں سے ایسے پاک ہو جاتا ہے گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں ہے۔
اہل سنت و جماعت کا عقیدہ ہے کہ شرک و کفر کے سو ا دوسرے کبیرہ گناہ کفر نہیں بلکہ کبیرہ گناہوں میں صرف شرک ہی ایسا گناہ ہے کہ جس کے کرنے والے کی تکفیر کی جائیگی اور اس گناہ کی مغفرت بھی نہیں۔اللہ تعالیٰ فرما تا ہے :
إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِۦ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَآءُ(النساء – 116)
ترجمہـ:اللہ شرک کو معاف نہیں فرماتا ،اور اس کے سوا جس کو چاہتا معاف کر دیتا ہے ۔ مشرکین اللہ تعالیٰ کی عبادت چھوڑ کر جن بتوں کی پوجا کرتے ہیں ان کے ساتھ دوزخ میں داخل کئے جائیں گے۔ چنانچہ اللہ وحدہ لاشریک فرماتا ہے:
اِنَّكُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ-اَنْتُمْ لَهَا وٰرِدُوْنَ ۔ (الانبیاء ۹۸)
ترجمہـ:تم اور جن بتوں کی تم عبادت کرتے ہو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سب جہنم کا ایندھن ہوںگے، تم اس میں داخل ہو نے والے ہو۔(اے مشرکو!)
عیسائی لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلا م کو خدا کا بیٹا تصور کرتے تھے اور ان کی والدہ کو خدا کی بیوی ۔ اسی طرح یہودی حضرت عزیر علیہ السلام کو خدا ما نتے تھے۔ تو مشرکین نے جب سرکار سے پوچھا کہ چاندو سورج کے پر ستار، درخت و پتھر کے پو جاری اور یہ چیزیں بھی جہنم میں جائیں گے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی (معاذ اللہ)دوزخ میں ہوں گے کیو نکہ وہ بھی تو عیسائیوں کے معبود ہیں ۔تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اسی زعم باطل ، عقیدہ فاسد ہ کی تردید میں فرمایا کہ وہ ان کے معبود نہیں ہیں وہ تو میرا ایک بندہ ہے جس پر میں نے انعام و اکرام کیا،ان کی زندگی بنی اسرائیل کے لئے ایک نمونہ تھی ۔لہٰذا ہمارے نبی عیسیٰ( علیہ السلام ) جنت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوں گے اور یہ مشرکین دوزخ میں اپنے جھوٹے خداؤں کے ساتھ ہوں گے۔
(تفسیر طبری ج۲۵ص۸۶ملخصاََ)
حضور غوث اعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ اپنی مشہور زمانہ کتاب ’’غنیۃ الطا لبین ،،میں فرماتے ہیں :
’’ جو لوگ شرک میں مبتلا رہے ہیں ان کو جہنم کے غاروں میں ڈال دیا جائے گا پھر غارو ں کے درمیان بند کر دیئے جائیں گے ۔ان غاروں میں سانپ اور بچھو کثرت سے ہوں گے ۔آگ کے شعلے اور اس کا دھواں ہو گا ،اور ہر دو زخی کا ہر گھڑی ستر ہزار بار جسم تبدیل کیا جائے گا ،،۔
(اردو ص۲۹۷)
حضرت ابو العباس بن سریج رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے مرض الموت میں خواب دیکھا کہ قیامت بپا ہے اور اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے ’’ علماء کہاں ہیں ؟ علماء حاضر ہو گئے ،فرمایا’’ کیا تم نے اپنے علم کے مطابق عمل کیا ؟ہم سب نے کہا ’’ خدا یا ! ہم سب نے کوتاہی کی اور برے اعمال کئے،،یہ جواب اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں آیا اس لئے وہی سوال دہرایا۔ اس پر میں نے کہا ’’جہاں تک میرا تعلق ہے تو میرے نامئہ اعمال میں ’’ شرک ،، نہیں ہے اور تیرا وعدہ ہے کہ اس کے سوا جو گناہ بھی ہوگا معاف کر دوں گا ،،اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’جاؤ!میں نے تمہیں معاف کر دیا ۔(رسالہ قشیریہ اردو ص۳۳۰)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ ’’ قیامت کے دن کافر کو لایا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ اگر تمہارے پاس زمین کے برابر سونا ہو تو کیا اسے فدیہ میں دے دیتے ؟وہ کہے گا ہاں !تو اس سے کہا جائے گا کہ میں نے تمہیں اس سے بھی آسان چیز کا حکم دیا تھا یعنی تو حید و ایمان ۔
(بخاری شریف ج۲ص۹۶۸)
ایک دفعہ حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے صحابہ کرام سے مخاطب ہو کر فرمایا ’’ الا انبئکم با کبرا لکبا ئر ؟کیا میں تمہیں بڑے گناہوں میں بھی جو سب سے بڑھ کر گناہ ہے اس کی خبر نہ دوں ؟تو صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسو ل اللہ ﷺ!ضرور خبر دیں ! آپ نے فرما یا :
الا شراک با للہ و عقوق الو الدین و شھا دۃالزور و شھادۃ الزور،،
ان گناہوں میں سب سے بڑھ کر گنا ہ اللہ سبحا نہ و تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا ہے اور ماں باپ کی نا فرمانی اور جھو ٹی گواہی ،جھوٹی گواہی ہے ،،۔
(بخاری شریف ج۱ص۳۶۲)
شرک کی تعریف اور بعض معمو لات اہل سنت :
شرک:
الا شراک ھو اثبات الشریک فی الا لو ھیۃ بمعنی و جو ب الو جود کما للمجوس او بمعنی ا ستحقاق العبادۃ کما لعبدۃ الا صنام۔
(شرح عقا ئد ص۵۶)
شرک یہ ہے کہ کسی کو معبود ہو نے میں شریک مانا جائے ،خواہ کسی کو اللہ کے سوا وا جب الوجود مانا جائے جیسا کہ مجوس (آتش پرست)مانتے ہیں ۔یا کسی کو عبادت کا مستحق مانا جائے جیسا کہ بت پرست مانتے ہیں ۔
شرک کی اس تعریف سے یہ باتیں مستفاد ہوتی ہیں کہ:
(۱)اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واجب الوجود سمجھنا ۔
(۲)اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو مستحق عبادت جاننا ۔
(۳)اسی طرح اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی صفت (اعانت ،فریاد رسی ، تصرف و اختیار ، قریب و بعید سے ند ا ء وغیرہ)کو مستقل با لذات ماننا شرک ہے ۔اور اگر ایسا عقیدہ نہیں رکھتا بلکہ یہ عقیدہ ہو کہ انبیاء و اولیاء ان صفات و افعال سے خدا کی عطا سے متصف ہیں تو یہ بات شرک نہیں ہے ۔
اہل سنت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃو السلام اور اولیاء ذوی الاحترام اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی طاقت سے دور و نزدیک کے افعال و اقول کو دیکھتے اور سنتے ہیں ۔اسی کی وہبی قدرت ،تصرفات و اختیار سے اس کے بندوں کی مدد کرتے ہیں ، اس کی عطا کردہ اور اطلاع سے نبی اکرم عالم ما کان و مایکون ﷺ مغیبات کی خبر دیتے ہیں ۔ تواس عقیدہ کے مطابق ان کے مزارات مقدسہ پر حاضری دینا ، استعانت کرنا ،ان کو اپنے مقاصد کی بر آوری کے لئے وسیلہ و شفیع بنانا نہ شرک ہے اور نہ ہی بدعت وگمرہی کہ اللہ تعالیٰ کے حضور ان وجیہہ ہستیوں کی صفات مذ کورہ مستقل و بالذات نہیں بلکہ عطائی ہیں ۔
اس تفصیل سے یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ’’ یا رسول اللہ !انظر حالنا ،،اور یا شیخ عبدالقادر شیئاََ للہ !کہنا بھی شرک نہیں ۔نداء یارسول اللہ ! کے جواز پر تو بکثرت آیات و احادیث اور آثار و اقوال فقہا و محدثین کبا ر وارد ہیں ۔بلکہ بدعقیدہ اور بد مذ ہبوں کے سرغنہ رشید احمد گنکو ہی خود ان عقائد کے قائل ہیں ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
۱۔ اور شیخ قدس سرہ کو متصرف بالذات اور عا لم غیب با لذات خود جان کر پڑھے گا وہ مشرک ہے ۔اور اس عقیدہ سے پڑھنا کہ شیخ کو حق تعالیٰ اطلاع کر دیتا ہے اور باذنہ تعالیٰ شیخ حاجت براری کر دیتے ہیں تو یہ شرک نہ ہو گا ،،۔
(فتاویٰ رشیدیہ کامل ص۵۰مطبوعہ محمد سعید اینڈسنز کراچی )
۲۔یہ خود آپ کو معلوم ہے کہ نداء غیر اللہ تعالیٰ کو کرنا دور سے شرک حقیقی جب ہوتا ہے کہ ان کو عالم ،سامع مستقل اعتقاد کرے ورنہ شرک نہیں ۔مثلاََیہ جانے کہ حق تعالیٰ ان کو مطلع فر ما دیوے گا ، یا باذنہ تعالیٰ انکشاف ان کو ہو جاوے گا ،یا باذنہ تعالیٰ ملائکہ پہنچا دیویں گے جیسا درود کے نسبت وارد ہے ،یا محض شوقیہ کہتاہو محبت میں یا عرض حال محل تحسرو حرمان میں کہ ایسے مواقع میں اگر چہ کلمات خطابیہ بولتے ہیں لیکن ہر گز نہ مقصود اسماع ہوتا ہے نہ عقیدہ ۔پس انہیں اقسام سے کلمات مناجات و اشعار بزرگاں کے ہوتے ہیں کہ فی حد ذاتہ نہ شرک نہ معصیت۔
(فتاویٰ رشیدیہ مکمل ص۶۸مطبوعہ محمد سعید اینڈ سنز کراچی)
۳۔استعانت کے تین معنی ہیں ۔ایک یہ کہ حق تعالیٰ سے دعاء کرے کہ بحرمت فلا ں میرا کام کر دے یہ باتفاق جائز ہے ۔خواہ عند القبرہویا دوسری جگہ ، اس میںکسی کو کلام نہیں ۔ دوسرے یہ کہ صاحب قبر سے کہے کہ تم میراکام کر دو ،یہ شرک ہے خواہ قبر کے پاس کہے خواہ قبر سے دور کہے ۔(یہ اس وقت شرک ہوگا جب کوئی صاحب قبر کو متصرف بالذات سمجھ کر یہ کہے کہ ،،تو میرا یہ کام کر دے ،،ورنہ شرک نہیں ۔جیسا کہ گنگو ہی جی کے کلام سابق یعنی ’’متصرف بالذات اور عالم غیب بالذات ،،قیودسے مستفاد ہوتا ہے ۔امجدی )
اور بعض روایات میں جو آیا ہے ،،اعینونی عباد اللّٰہ !،،تو وہ فی الواقع کسی میت سے استعانت نہیں بلکہ عباد اللہ جو صحرا میں مو جود ہوتے ہیں ان سے طلب اعانت ہے کہ حق تعالیٰ ان کو اسی کام کے واسطے وہاں مقرر کیا ہے ، تو وہ اس باب سے نہیں ہے ۔اس سے حجت جواز پر لانا جہل معنی حدیث سے ۔ تیسرے یہ کہ قبر کے پاس جا کر کہے کہ اے فلاں ! تم میرے واسطے دعاء کرو کہ حق تعالیٰ میرا کام کر دیوے ۔اس میں اختلاف علماء کا ہے ۔مجوز سماع موتیٰ اس کے جواز کے مقر ہیں اور مانعین سماع منع کرتے ہیں ۔ سو اس کا فیصلہ اب کرنا محال ہے ۔مگر انبیاء علیہم السلام کے سماع میں کسی کو خلاف نہیں ۔اسی وجہ سے ان کو مستثنیٰ کیاہے اور دلیل جواز یہ ہے کہ فقہاء نے بعد سلام کے وقت زیارت قبر مبارک شفاعت مغفرت کا عرض کرنا لکھا ہے ۔پس یہ جواز کے واسطے کافی ہے ۔
(فتاویٰ رشیدیہ کامل ص۱۱۴مطبوعہ محمد سعید اینڈسنز کراچی)
تبصرہ:
فتاویٰ رشیدیہ کی یہ مذکورہ اقتباسات سے یہ امر واضح ہو گیا کہ غیر اللہ کو نداء کرنا ، ان سے استعانت اور حاجت بر آری کے لئے درخواست کرنا ان کو عالم بالذات ،سامع بالذات اور متصرف بالذات سمجھے بغیر تویہ بالا تفاق جائز ہے ۔الحمد للہ یہی مسلمانان اہل سنت و جماعت کاعقیدہ ہے جس کو موجودہ ذریت وہابیہ جبراََشرک اور بدعت و گمرہی سے موسوم کرتے ہیں جو نرے جہالت ہے ۔
مختصر یہ ہے کہ جو عقیدہ توحید کے خلاف رکھتاہے خدائے تعالیٰ کے وحدانیت کا منکر اور شرک کے گنا ہ میں ملوث ہے وہ دوزخی اور جنت کی نعمتوں سے محروم ہیں ۔اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتاہے :
’’اِنَّهٗ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَ مَاْوٰىهُ النَّارُ-وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ،،(مائدہ ص۷۲)
ترجمہ: جو اللہ کا شریک ٹھہرائے تو اللہ نے اس پر جنّت حرام کردی اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں.