گستاخان رسول کی دریدہ دہنی اور ان کا انجام

گستاخان رسول کی دریدہ دہنی اور ان کا انجام:
ابوالعطر محمد عبدالسلام امجدی برکاتی
متھلا بہاری نگر پالیکا،تاراپٹی مشرقی محلہ ،دھنوشا(نیپال)
جس کسی نے بھی حضور رحمت عالم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرنے کی جرأت کی ہے اللہ نے اسے دنیا میں ذلیل وخوار کیا اور آخرت میں اس کے لئے سخت سے سخت تر عذاب میں مبتلا فر مائے گا۔ چودہویں صدی میں جن لوگوں نے سب سے زیادہ رسول کریم کی شان میں گستاخیاں کیں ہیں اور سرکار کی شان گھٹانے کی کوشش کی اور اپنی کتا بوں میں ان غلاظتوں کو شائع کیا ان میں اشرف علی تھانوی ، رشید احمد گنگوہی ، قاسم نانوتوی اور اسمعیل دہلوی سرفہرست ہیں اللہ تعالیٰ ان کی قبروں میں اپنے غضب و قہر کا عذاب نازل فرمائے اور ان کے ہمنواؤں کو جو زندہ ہیں ناکام و نامراد کرے۔ ان کبرائے دیابنہ و ہابیہ کی کفری عبارتیں اور شان رسالت میں گستاخانہ جملے ان کی کتابیں تقویۃ الایمان ، فتاوی رشیدیہ ، صراط مستقیم ، بہشتی زیور ، حفظ الایمان ، براہین قاطعہ اور تحذیر الناس جیسی گندی کتابوں  میں ملاحظہ کیجئے اور للہ انصاف کیجئے کہ جس جماعت کے عقیدے ایسے گندے ہوں کیا وہ اب بھی اپنے دعوی مسلمانی میں سچے ہیں ؟ اور ان کے ساتھ مسلمانوں کا اٹھنا بیٹھنا ، کھانا پینا ، شادی بیاہ کا معاملہ اور ان کے پیچھے نمازپڑھنی کیا جائز ہے؟ نہیں ! ہر گز نہیں ! اس لئے مسلمانو! آپ ایسے گندے عقائد والوں کے ساتھ ہر طرح کے تعلقات منقطع کر لیجئے تاکہ آپ خود بھی دوزخ کی آگ سے بچیں اور اپنے اہل و عیال کو بھی بچا سکیں۔ کیونکہ باطل عقائد والے مثلا وہابی ، دیوبندی ، مرزائی اور رافضی وغیرہا سب منافق و مرتد ہیں اور منافق کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَن تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا ‘‘ بے شک منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوں گے اور تو ہرگز ان کا کوئی مددگار نہ پائے گا۔
میرے عزیر سنی مسلمان بھائیو! آپ ان بدعقیدوں کی صحبت سے دور رہیں اور مسلک اعلیٰ حضرت کے پرچم تلے آکر اپنے ایمان و عقائد کی حفاظت کریں ۔مسلک اعلیٰ حضرت کوئی نیا مسلک نہیں ہے بلکہ اس زمانے میں اسلام ، صحابہ و تابعین اور اسلاف و بزرگان دین کے افکار و نظریات کی سچی تعبیر و ترجمان کا نام ہے۔اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی مسلمان کو کافر نہیں کہا اور نہ لکھا بلکہ جس نے رسول خدا ﷺ کی شان میں گستاخی کرکے کفرکیا اسے آپ نے تو آئینہ دکھایا اور اسے کفر و ارتداد سے باز آنے کی دعوت دی۔ کیا کسی گناہ کرنے والے کو گناہ سے روکنا جر م ہے ؟شریعت اور حکام شریعت کے ساتھ استہزا کرنے والے کو اس فعل بد سے روکنا جرم ہے ؟ حضور ﷺ کی ناموس کی حفاظت گناہ ہے؟ نہیں اور ہر گز نہیں تو پھر سرکار اعلیٰ حضرت پر یہ الزام کیوں؟
حضور شیر نیپال فرماتے ہیں:
چونکہ ان دین کے دشمنوں، گستاخوں بدمذہبوں، بددینوں نے  سرور کائنات فخرموجودات علیہ الصلوات و التسلیمات کی شان پاک میں گستاخانہ، ناروا، نازیبا کلمات لکھے اور چھاپے، کھل کر  سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تحقیر و توہین کی۔ اس لئے حامی ملت، ماحی کفر و ضلالت، اعلیٰ حضرت مجدد مذہب اہل سنت فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خاں رضی اللہ تعالیٰ عنہ و ارضاہ عنا نے ان بدگویوں، دشنامیوں پر قرآنی، ایمانی، حقانی فیصلہ صادر فرمایا اور حکم شرعی سنایا کہ یہ مذکورہ اشخاص اپنے کلمات خبیثہ کفریہ کے سبب کافر و مرتد ہیں۔ اور جو شخص ان کے کفریات سے آگاہ ہوکر ان کو مسلمان جانے یا ان کے کافر ہونے میں شک کرے یا انہیں کافر کہنے میں تأمل کرے تو وہ بھی کافر۔ اس شرعی فیصلہ کو سن کر دیوبندیوں کو چاہئے یہ تھا کہ اپنے کتاب سے ان کفری عبارتوں کو محو کرکے توبہ کرنا مگر یہ نہ کرکے شور و ہنگامہ شروع کردیا، نہ خداوند ذو الجلا ل کا خوف رکھا اور نہ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے شرمایا آسمان سرپر اٹھا لیا۔ گالیوں کا بازار گرم کردیا جابجا جلسہ جلوس کئے۔ اشتہارات چھاپے گندے الزامات لگائے کہ وہ مکفر مسلمین ہے بلاوجہ مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں۔ ان کتابوں میں توہین کے الفاظ نہیں یہ غلط کہتے ہیں تو امام اہل سنت اعلیٰ حضرت محدث بریلوی نے مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کی۔ المعتمد المستند ۱۳۲۰؁ میں تحریر فرمائی۔ پھر بھی ان کفری عبارتوں کو اسلامی بنانے پر آمادہ نہ ہوئے۔ اور شور غوغا بدستور جاری رکھا اور وہی پرانی آلاپ کہ صرف ان کا فتویٰ ہے۔ ۱۳۲۳؁ میں اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت علیہ الرحمہ حرمین شریفین زادہما اللہ شرفا و تکریما کی زیارت سے مشرف ہوئے ،اسی مبارک سال میں ’’المعتمد المستند‘‘ پر مکمل اتفاق کرتے ہوئے بڑی فراخ دلی کے ساتھ تقریظیں لکھیں اور ناتونوی، گنگوہی، انبیٹھوی، تھانوی، قادیانی کے بارے مین فرمایا کہ یہ لوگ کافر و مرتد ہیں۔ اور فرمایا ’’ من شک فی کفرہ و عذابہ فقد کفر‘‘ یعنی جو ان کے کفریات پر مطلع ہوکر ان کے کافر ہونے اور معذب ہونے میں شک کرے وہ بھی بلاشک و شبہ کافر پھر فرمایا عوام کو دھوکہ دینے والے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے والے گمراہ اور گمراہ کرنے والے اسلام میں ان کا نام و نشان کچھ نہیں، ان کا نہ روزہ قبول، نہ نماز، نہ زکوٰۃ، نہ حج، نہ کوئی فرض، نہ نفل کھلے کافروں سے ان کا نقصان زیادہ اور سخت ۔ ظاہر مزین اور باطل خباثتوں سے مملوء، عوام مسلمانوں پر سخت خطرہ اور اندیشہ۔ اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کو ان کافروں گمراہ گروں کے عقائد باطلہ فاسدہ سے بچائے۔ آمین! او کما قالوا انہیں مقدس تقاریظ کے مجموعہ کا نام ’’حسام الحرمین علی منحر الکفر و المبین‘‘ ہے جو ۱۳۱۴؁ میں اردو ترجمہ کے ساتھ اور ۱۳۲۶؁ میں تمہید ایمان کے ساتھ منظر عام پر جلوہ گر ہوا۔ تاکہ یہ لوگ ہدایت پائیں، نصیحت حاصل کریں،غور و فکر کریں اور اپنی کفریات سے توبہ کریں۔
مگر ہٹ دھرمی کا برا ہو اپنی ضد پر اڑے رہے، اتہام طرازی افترا پردازی میں مصروف ہوگئے۔ بولے دھوکہ اور فریب دے کر علمائے الحرمین سے فتویٰ حاصل کیا ، عبارت میںٹ قطع برید کیا ہے۔ ہماری کتاب اردو میں وہ اردو نہیں جانتے ۔ طرح طرح سے عوام کو فریب دے کر اندھیرے میں رکھا ،نہ توبہ کیا نہ گندی عبارتیں مٹائیںبلکہ اس کے بعد گالی نامہ ایک کتاب ’’ الشہاب الثاقب‘‘ شائع کی جس میں جی بھر کر اہل سنت کے زبر دست محسن ،محافظ دین متین، اعلیٰ حضرت عظیم البرکت کوگالیاں دیں۔ کوّا خوروں نے حسام الحرمین کی اشاعت پر کائیں کائیں کا گلی گلی شور مچانا شروع کردیا کہنے لگے چند لوگوں نے غلط تصدیق کی ہیں۔ تو پھر مسلمانوں اور ان کو متنبہ کرنے کے لئے شیر بیشہ اہل سنت نے حسام الحرمین پر علمائے ہند و سندھ بلکہ ہندوستان بھر کے مشاہیر علمائے و مشائخ سے تصدیق حاصل کیں۔ بالاتفاق دو سو اڑسٹھ علمائے ربانیین نے فرمایا کہ حسام الحرمین حق ہے، صحیح ہے، درست ہے۔ بلاشک و شبہ رشید احمد گنگوہی، خلیل احمد انبیٹھی، اشرفعلی تھانوی، قاسم نانوتوی اپنے ان کفریات واضحہ صریحہ قابل توجیہ تاویل کی بناپر ضرور کفار و مرتدین و ملعونین ہیں۔ ایسے جو ان کی کفریات پر مطلع ہو کر بھی ان کے کفریات میں شک کرے اور انہیں کافر نہ جانے تو خود کافر۔ مسلمان پر احکام حسام الحرمین کا ماننا فرض قطعی ضروری اور ان کے مطابق عمل کرنا۔ حکم شرعی لازم حتمی انتہی۔ ابو الکلام بھی انہیں دیوبندیوں کا ساتھ اور قرآن عظیم کا مکذب و محرف ہے۔ عیسے علیہ السلام کے صاحب شریعت ہونے کا منکر اور جو ایسا ہو وہ خود بحکم قرآن کافر و نا مسلمان۔ (فتاویٰ رضویہ جلد شسم ص ۱۴ ملخصا)
ان لوگوں کے اسلامی خدمات اور اسلام کی اشاعت کی مختصر جھلیکاں دیکھ لی۔ ان کے یہاں کفر اسلام ہے اور اسلام کفر۔ برعکس نام نہند کافر والا معاملہ ہے ۔خود بے ایمان ہے اور دوسروں کو بے ایمان بناتے ہیں اور اس کو اسلام کی اشاعت کہتے ہیں۔ معاذ اللہ رب العلمین بجاہ سید المرسلین علیہ وعلیٰ آلہ و اصحابہ الصلوات و التسلیمات۔ آمین آمین! رہا پھلواری والوں کا حال تو یہ بھی انہیں اشخاص مذکورہ کے ساتھی پراتی ہیں۔ انہیں کی طرح یہ بھی دائرۂ اسلام سے خارج ہیں، یہ لوگ پیری، مریدی کے ہرگز ہرگز لائق نہیں، ان سے دانستہ مرید ہونا کافر ہونا ہے۔ معاذ اللہ!(فتاویٰ برکات)
قرانی آیات کی روشنی میں آپ نے سابقہ صفحات میں ملاحظہ کر لیا کہ جو شخص حضو ر اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کی جرأت کرے اس کے لئے کیا کیا وعیدیں ہیں اور آخرت میں اس کے لئے کیسے کیسے عذاب تیار ہیں۔ان آیات میں کسی باطل فرقہ کا نام نہیں لیا بلکہ مطلقا ہے وہ کوئی بھی فرقہ ہو ، کسی بھی زمانہ میں وجود میں آئے ، جو بھی ہو اگر گستاخ رسول ہے تو وہ توہین شان رسالت کرنے کی وجہ سے ایمان سے محرو م اور ا سلام سے خارج ہوجاتا ہے۔
اب فقہاء کرام کے اقوال کی روشنی میں ان گروہوں کا شرعی حکم ملاحظہ کریں جو توہین شان رسالت میں ملوث ہیں۔
(۱) الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ ج:۲،ص:۱۹۰ میں ہے کہ:
قال محمد ابن سحنون اجمع العلماء ان شاتم النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم المنتقص لہ کافر والوعیدجارعلی بعذاب اللّٰہ لہ وحکہٗ عندالامۃ القتل ومن شک فی کفرہ عذابہ کفر۔
ترجمہ: محمد ابن سحنون نے فرمایا علماے دین کا اجماع ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والا ان کی عظمت گھٹانے والا کافر ہے اور اس پر عذاب الٰہی کی وعید جاری ہے اور اس کا حکم امت مسلمہ کے نزدیک قتل ہے اور جواس کے کافر اور مستحق عذاب ہونے میں شک کرے وہ بھی کافر۔
(۲) درمختارج:۳ص:۳۱۷میں ہے:
والکافربسب نبی من الانبیاء فانہ یقتل حداً ولاتقبل توبتہ مطلقاً وسب اللّٰہ تعالیٰ قبلت لانہ حق اللّٰہ تعالیٰ والاول حق عبدلایزول بالتوبۃ ومن شک فی عذابہ وکفرہ کفر۔
ترجمہ: نبیوں میں سے کسی نبی کی شان میں گستاخی کرنے سے جو کافرہوا اسے بطریق حدقتل کیاجائے گا۔ اور اس کی توبہ ہرگز مطلقاً قبول نہ کی جائے گی اور اگر اللہ کی شان میں گستاخی کی تو اس کی توبہ قبول کرلی جائے گی۔ اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور اول بندہ کاحق جو توبہ سے زائل نہیں ہوسکتا اور جو اس کے معذب ہونے اور کافر ہونے میں شک کرے خود کافر۔
(۳) ردالمحتار علی درالمختارشرح تنویرالابصار ج:۳،ص:۳۱۷میں ہے :
قال ابن سحنون اجمع المسلمون ان شاتمہ کافروحکمہ القتل ومن شک فی عذابہ وکفرہ کفر۔
ترجمہ: ابن سحنون نے فرمایامسلمانوں کا اجماع ہے کہ آپ کی شان میں گستاخی کرنے والا کافر ہے اور اس کاحکم قتل ہے اور جواس کے عذاب وکفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔
(۴) اور الاشباہ والنظائر ج:۱،ص:۲۸۹، کتاب السیربا الردۃ میں ہے:
لاتصح ردۃ السکران الاالردۃ بسب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فانہ یقتل ولا یعفیٰ عنہ کذافی البزازیۃ کل کافر تاب فتوبتہ مقبولۃ فی الدنیا والاٰخرۃ الاجماعۃ الکافربسب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وسائر الانبیا وبسب الشیخین اواحدھما کل مسلم ارتدفانہ یقتل ان لم یتب الامرأۃ حکم الردۃ وجوب القتل ان لم یرجع وحبط الاعمال مطلقاً وبینونۃ امرأتہ مطلقاواذا مات علی ردتہ لم یدفن فی مقابرالمسلمین ولا اھل ملۃ وانمایلقی فی حفرۃ کالکلب والمرتداقبح کفراً من الکافرالاصلی ملخصاً۔
ترجمہ: نشہ کی بے ہوشی میں اگرکسی سے کفر کی کوئی بات نکل جائے اسے بوجہ بے ہوشی کافرنہ کہیں گے نہ سزائے کفردیں گے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی وہ کفرہے کہ نشہ کی بے ہوشی سے بھی صادر ہوا تواسے معافی نہ دیں گے اور اسے قتل کیاجائے گا جیساکہ بزازیہ میں ہے۔ہرطرح کا کافر جوتوبہ کرے تو اس کی توبہ دنیا وآخرت میں مقبول ہے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور بقیہ انبیائے کرام علیہم السلام وشیخین رضی اللہ عنہما یا ان دونوں میں سے کسی ایک کی شان میں گستاخی کرنے سے کافر ہونے والے لوگوں کی توبہ مقبول نہیں۔ہر مسلمان(معاذاللہ) جومرتد ہوجائے تو اگرتوبہ نہ کرے تو سوائے عورت کے قتل کیاجائے گا۔مرتدکاحکم وجوب قتل ہے اگر رجوع نہ کرے اورعملوں کامطلقاً اکارت ہوجانا اور مرتد کی بی بی فوراً اس کے نکاح سے نکل جاتی ہے اور جب وہ اسی ارتداد پر مرجائے (والعیاذ باللہ تعالیٰ)تو اسے مسلمان کے مقابر میں دفن کرنے کی اجازت نہیں نہ کسی ملت والے مثلاً یہودی یانصرانی کے گورستان میں اور وہ کتے کی طرح کسی گڈھے میں پھینک دیاجائے اور مرتد(وہابی، دیوبندی، رافضی، قادیانی) اصلی کافر(مثلا ہندو، سکھ وغیرہ) کے کفرسے بدترہے۔ ملخصا
(۵) مجمع الانہرشرح ملتقی الابحرص:۶۸۵میں ہے:
وامااذاسبہ علیہ الصلاۃ والسلام اواحدامن الانبیاء مسلم ولوسکران فانہ یقتل حداً ولا توبۃ لہ اصلاً تنجیہ من القتل کالزندیق لانہ حدوجب فلایسقط بالتوبۃ وفی البزازیۃ من شک فی عذابہ وکفرہ فقد کفرملخصاً۔
ترجمہ: جو مسلمان حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم یاکسی نبی کی شان میں گستاخی کرے اگرچہ نشہ کی حالت میں تواسے قتل کیاجائے گا اور اس کی توبہ اسے قتل سے ہرگز بچانہیں سکتی جیسے زندیق (دھریئے بے دین) کی توبہ نہ سنی جائے گی۔ اس لیے کہ حدواجب ہے تو توبہ سے ساقط نہ ہوگی اور بزار یہ میں ہے جو شخص اس گستاخی کرنے والے کے کفر میں شک لائے گا وہ بھی کافر ہوجائے گا۔
(۶) فتح القدیر جلد ۵ ص:۳۳۴میں ہے:
کل من ابغض رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بقلبہ کان مرتداً فالساب بطریق اولیٰ ثم یقتل حداً عندنا فلاتعمل توبتہ فی اسقاط القتل قالوا ھٰذامذہب اہل الکوفۃ ومالک ونقل عن ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ ولا فرق بین ان یجیٔ تائباً من نفسہ اوشھدعلیہ بذلک بخلاف غیرہ من المکفرات فان الانکار فیھاتوبۃ فلاتعمل الشھادۃ معہ حتیٰ قالوا یقتل وان سب سکران ولا یعفیٰ عنہ۔
ترجمہ: جس کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کینہ ہوتو وہ مرتد ہے توگستاخی کرنے والا بدرجۂ اولیٰ کافرہے۔پھر اسے حداً قتل کیاجائے گا۔ہمارے نزدیک اور قتل کے ساقط کرنے میں اس توبے کااثرنہ ہوگا۔ اور علماء نے فرمایا یہ کوفیوں کامذہب ہے اور حضرت امام مالک کااور یہی منقول ہے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ۔ اور کوئی فرق نہیں ہے اس کے درمیان کہ وہ خود سے توبہ کرتا ہوا آئے یا اس کی اس پر گواہی دے۔ بخلاف اس کے علاوہ کفری باتوں کے کیوں کہ انکار اس میں توبہ ہے تو اس کے ساتھ گواہی کااثر نہ ہوگا۔ یہاں تک کہ علماء نے فرمایا کہ اسے قتل کیا جائے گااور اگرنشہ کی حالت میں کلمۂ گستاخی کاجب بھی معاف نہ کیاجائے گا۔ اسے سزائے موت دی جائے گی۔
لیکن مسئلہ قتل کا تعلق بادشاہ اسلام سے ہے کہ سلطان اسلام ایسے بدگویوں، بارگاہ نبوی کے گستاخوں کو مہلت نہ دے۔ فوراً بلاتوقف قتل کردے یہ اس پر فرض ہے اور عالموں پر ان کے مکائدکااظہار اور ان کے عقائد کاابطال اور ان کے مفاسد کی تردید فرض ہے اور عوام الناس پر یہ لازم ہے کہ ان سے دور بھاگیں۔ ان سے میل جول نہ کریں۔ ان کی کوئی بات نہ سنیں۔ ان کی کتابیں نہ دیکھیں۔ ان کے جلسے جلوس میں نہ جائیں۔
(۷) شفاء شریف ج:۲،ص:۲۴۷ میں ہے:
نکفرمن لم یکفر من دان بغیرملۃ المسلمین من الملل اووقف فیھم اوشک۔
ترجمہ: ہم ہراس شخص کو کافر کہتے ہیں جو کافر کوکافر نہ کہے یا اس کی تکفیر میں توقف کرے یاشک رکھے۔
(۸) امام قاضی عیاض شفاء شریف ج:۲ص:۱۹۱پر فرماتے ہیں:
وقال احمد بن ابی سلیمان صاحب سحنون من قال ان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان (معاذ اللّٰہ معاذ اللّٰہ ثم معاذ اللّٰہ) اسود یقتل وقال فی رجل قیل لہ لاوحق رسول اللّٰہ فقال فعل اللّٰہ برسول اللّٰہ کذا وذکر کلاماً قبیحاً فقیل لہ ماتقول یاعدواللّٰہ فقال اشدمن کلامہ الاول ثم قال انمااردت برسول اللّٰہ العقرب فقال ابن ابی سلیمان للذی سئل اشھدعلیہ وانا شریکک یریدفی قتلہ وثواب ذالک قال حبیب بن الربیع لان ادعاء التاویل فی لفظ صراح لایقبل۔
ترجمہ: امام احمدابن ابی سلیمان تلمیذورفیق امام سحنون رحمہم اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ جو کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (معاذ اللہ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ) سیاہ فام تھے اسے قتل کردیاجائے۔ انہیں سے ایک کمینہ شخص کی نسبت کسی نے پوچھاکہ اس سے کہاگیا تھاکہ رسول اللہ کے حق کی قسم تو اس نے کہا اللہ رسول اللہ کے ساتھ ایسا ایساکرے اور ایک قبیح کلام ذکر کیاپھر اس مردک سے کہاگیا اے دشمن خدا تورسول اللہ کے بارے میں کیابکتا ہے تواس سے بھی سخت ترلفظ بکاپھر بولا میں نے تورسول اللہ سے بچھومراد لیاتھا۔ امام ابن ابی سلیمان نے فتویٰ پوچھنے والے سے فرمایاتم اس پر گواہ ہوجائو اور اسے سزائے موت دلانے اور اس پر جوثواب ملے گا اس میںمیں تمہارا شریک ہوں۔ یعنی تم حاکم شرع کے حضور اس پر شہادت دو اور میں بھی سعی کروں گا کہ ہم تم دونوں بحکم حاکم اسے سزائے موت دلانے کاثواب عظیم پائیں۔ امام حبیب ابن ربیع نے فرمایا یہ اس لیے کہ کھلے لفظ میں تاویل کادعویٰ مقبول نہیں۔ انتہیٰ
دیو بندیوں نے حضور اقدصلی اللہ علیہ و سلم کی شان اقدس میں صریح گستاخیاںکی ہیں،جن پر علماء عرب وعجم ،ہندوسندھ نے ان کے بارے میں یہ فتویٰ دیاکہ کافر ومرتد ہیں۔ حتیٰ کہ جوان کے کفریات پر مطلع ہوکر انہیں کافرنہ جانے وہ بھی کافرہے۔قاسم نانوتوی نے اپنی کتاب تحذیر الناس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ختم نبوت کا انکار کیا ۔ اس نے لکھا کہ ’’آپ کا خاتم ہونا بایں معنی کہ آپ سب میں پچھلے نبی ہیں عوام کاخیال ہے۔ یہ مقام مدح میں ذکر کے لائق نہیں ‘‘حالانکہ اس پر امت کااجماع ہے کہ خاتم النبین کامعنیٰ آخرالانبیاء ہے اورجو حضور پر نورصلی اللہ علیہ وسلم کوآخر الانبیا ء نہ مانے وہ کافرہے۔اگر چہ نمازپڑھے،زکوٰۃدے،حج کرے ، قرآن پڑھے ،پڑھائے۔ رشیداحمد گنگوہی ،خلیل احمد انبیٹھی نے براہین قا طعہ میں شیطان لعین کے لئے وسعت علم ثابت مانااور حضوراکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے علم پاک کی وسعت کاانکارکیا۔ اور شیطان لعین کے علم کوحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علوم سے زیادہ بتایا ، اس میں بلاشبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کی توہین ہے اورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے علم پاک کو بچو ں، پاگلوں، چوپایوں کے علم سے تشبیہ دی یا ان کے برابر بتایاہے۔دونوں صورتوںمیں حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح توہین ہے۔ اس پر بھی امت کااجماع ہے کہ جوشخص بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرے وہ کافرہے۔
شفا شریف اوراس کی شرح اور ردالمحتارمیں ہے :
اجمع المسلمون علیٰ ان شاتم النبی کافر من شک فی عذابہٖ وکفرہٖ کفر۔
مسلمانوں نے اس پر اجماع کیا ہے کہ نبی کی توہین کرنے والاکافرہے ایسا کہ جواس کے کافر ہونے میں اور مستحق عذاب ہو نے میں شک کرے وہ کافرہے۔
اعلیٰ حضرت قدس سرہ فتاویٰ رضویہ جلد ششم ،ص:۹۰پر فرماتے ہیں:
طوائف مذکورین وہابیہ،نیچریہ وقادیانیہ وغیر مقلدین ودیوبندیہ وچکڑالویہ خذلھم اللہ تعالیٰ اجمعین اس آیت کریمہ کے مصد اق بالیقین اور قطعاً یقینا کفارومرتدین ہیں۔ان میں ایک آدھ اگرچہ کافر فقہی تھا اور صدہا کفراس پرلازم تھے جیسے ۲والادھلوی مگراب اتباع واذناب میں اصلاً کوئی ایسانہیںجو قطعاًیقینا اجماعاً کافرکلامی نہ ہوایسا کہ من شک فی کفرہ فقدکفر۔ جوان کے اقوال ملعونہ پرمطلع ہوکر ان کے کفرمیں شک کرے وہ بھی کافر،ان سے میل جول قطعی حرام،ان سے سلام وکلام حرام ،انہیں پاس بٹھا ناحرام، ان کے پاس بیٹھنا حرام، بیمارپڑیں توان کی عیادت حرام ،مرجائیںتوانہیں مسلمانوں کاسا غسل و کفن دیناحرام،ان کاجنازہ اٹھاناحرام،ان پرنمازپڑھناحرام، انہیں مقابر مسلمین میں دفن کرناحرام۔ان کی قبرپر جاناحرام۔انہیں ایصال ثواب کرناحرام ۔مثل نمازجنازہ کفر۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۔
ترجمہ: اگر شیطان تجھے بھلا دے تویا دآئے پر ان ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔
(ماخوز از: فتاویٰ برکات )

Spread the love

Check Also

بعض دارالافتا اور وہاں کے مفتیوں کے حالات

بعض دارالافتا اور وہاں کے مفتیوں کے حالات از:ابوالعطر محمد عبدالسلام امجدی برکاتی ۔ متھلابہاری …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔