ALLAH WALON PAR ILZAM TARASHI KA ANJAM

اللہ والوں پر الزام تراشی کا انجام و وبال

ابوالعطر محمد عبدالسلام امجدی برکاتی

متھلا بہاری نگر پالیکاتاراپٹی،دھنوشا(نیپال)
الزام تراشی اور تہمت لگانا یہ بہت بڑا گناہ ہے اور خاص طور پر کسی سنی عالم دین اور پھر مسلمانوں کے بڑے عالم دین اور ان میں بھی اللہ والوں پر پر الزام تراشی اور تہمت بہت ہی زہادہ گناہ کا کام ہے۔یہ ایسا فعل ہے جس سے دنیا بھی تباہ اور آخرت بھی تباہ۔ایسی حرکت کرنے والا دونوں جہان میں ذلیل و رسوال ہوتا ہے اور عذاب شدید کے مستحق ہوتے ہیں۔ یہ علما کی توہین بھی ہے جس کی شرع شریف نے بالکل کی اجازت نہیں دی ہے۔
رسول اللہ ﷺنے اپنی امت کو علماء سے بغض رکھنے اور ان کی گستاخی کرنے سے منع فرمایا ہے آپ ﷺکا فرمان ہے کہ :
اُغْدُ عَالِمًا أَوْ مُتَعَلِّمًا أَوْ مُسْتَمِعًا أَوْ مُحِبًّا وَلَا تَكُنِ الْخَامِسَ فَتَهْلَكَ (مسند البزار :3626 )
عالم بنو یا علم حاصل کرنے والا بنو،یا علم کی باتیں سننے والا بنو اور یہ بھی نہ ہوسکے تو اہل علم سے محبت کرنے والا بنو اور پانچواں نہ بنو کہ ہلاک ہوجاؤ گے۔
یعنی علم وعلماء سے بغض وکدروت کرنے والے نہ بنیںبلکہ محبت کرنے والے بنیں۔
امام احمد بن اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :الوقيعة في اھل العلم ولا سيما اکابرھم من کبائر الذنوب .
اہل علم کی مذمت و توہین کرنا ، خاص طور سے بڑے علماء کرام کی کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔
( الرد الوافر لابن ناصر الدین الدمشقي : 283 )
علامہ ابن نجیم مصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ’’الِاسْتِهْزَاءُ بِالْعِلْمِ وَالْعُلَمَاءِ كُفْرٌ‘‘علم اور علماء کی توہین کفر ہے۔(الاشباہ والنظائر، باب الردۃ : ۱۶۰ )
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لحوم العلماء مسمومۃ، من شمها مرض، ومن أكلها مات (المعيد في أدب المفيد والمستفيد ،ص: 60)
’’علماء کرام کا گوشت زہریلا ہوتا ہے جو اس کو سونگھے گا بیمار پڑ جائے گا اور جو اس کو کھائے گا مر جائے گا۔‘‘
امام احمد رضاخان علیہ الرحمہ اپنی کتاب فتاویٰ رضویہ میں لکھتے ہیں کہ:
’’ علمائے دین کی توہین کرناسخت حرام، سخت گناہ، کبیرہ، عالم دین سُنّی صحیح العقیدہ کہ لوگوں کو حق کی طرف بلائے اور حق بات بتائے محمد ﷺکا نائب ہے، اس کی تحقیر و توہین معاذ اللہ جناب محمد ﷺکی توہین ہے اورمحمد ﷺکی بارگاہ میں گستاخی موجب ِ لعنت ِ الٰہی و عذابِ الیم ہے۔(فتاوی رضویہ ج۲۳ص۶۴۹)
حضرت موسی پر قارون کا الزام اور اس کا انجام:
قارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چچا ’’ یصہر‘‘ کا بیٹا تھا۔ بہت ہی شکیل اور خوبصورت آدمی تھا۔ اسی لئے لوگ اس کے حسن و جمال سے متاثر ہو کر اس کو ’’منور‘‘ کہا کرتے تھے اس کے ساتھ ساتھ اس میں یہ کمال بھی تھا کہ وہ بنی اسرائیل میں ’’ توراۃ‘‘ کا بہت بڑا عالم اور بہت ہی ملنسار وبا اخلاق انسان تھا۔ اور لوگ اس کا بہت ہی ادب و احترام کرتے تھے۔
لیکن بے شمار دولت ان کے ہاتھ آتے ہی اسی کے حالات میں ایک دم تغیر پیدا ہوگیا اور سامری کی طرح منافق ہو کر حضرت موسیٰ کا بہت بڑا دشمن ہوگیا۔ اور اعلیٰ درجے کا متکبر اور مغرور ہوگیا۔ جب زکٰوۃ کا حکم نازل ہوا تو اس نے حضرت موسیٰ کے روبرو یہ عہد کیا کہ وہ اپنے تمام مالوں میں سے ہزارواں حصہ زکوٰۃ نکالے گا۔ مگر جب اس نے مالوں کا حساب لگایا تو ایک بہت بڑی زکوٰۃ کی نکلی ۔ یہ دیکھ کر اس پر اپک دم حرص و بخل کا بھوت سوار ہوگیا اور وہ نہ صرف زکوٰۃ کا منکر ہوگیا بلکہ عام طور پربنی اسرائیل کو بہکانے لگا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس بہانے تمہارے مالوں کو لے لینا چاہتے ہیں۔ یہاں تک کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لوگوں کو برگشتہ کرنے کے لئے اس خبیث نے یہ گندی اور گھنائونی چال چلی کہ ایک عورت کو بہت زیادہ مال و دولت دے کر آمادہ کر لیا کہ وہ آپ پر بدکاری کا الزام لگائے۔ چنانچہ عین اس وقت جب کہ حضرت موسیٰ وعظ فرما رہے تھے۔ قارون نے آپ کو ٹوکا کہ فلاں عورت سے آپ نے بدکاری کی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اس عورت کو میرے سامنے لائو۔ چنانچہ وہ عورت بلائی گئی۔ تو حضرت موسیٰ نے فرمایا کہ اے عورت! اس اللہ کی قسم! جس نے بنی اسرائیل کے لئے دریا کو پھاڑ دیا اور عافیت و سلامتی کے ساتھ دریا کے پار کرا کر فرعون سے نجات دی، سچ سچ کہدے کہ واقعہ کیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جلال سے عورت سہم کر کانپنے لگی اور اس نے مجمع عام میں صاف صاف کہہ دیا کہ اے اللہ کے نبی! مجھ کو قارون نے کثیر دولت دے کر آپ پر بہتان لگانے کے لئے آمادہ کیا ہے۔ اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام آبدیدہ ہو کر سجدہ شکر میں گر پڑے، اور بحالت سجدہ آپ نے یہ دعا مانگی کہ یا اللہ! قارون پر اپنا قہر وغضب نازل فرما دے۔ پھر آپ نے مجمع سے فرمایا کہ جو قارون کا ساتھی ہو وہ قارون کے ساتھ ٹھہرا رہے اور جو میرا ساتھی ہو وہ قارون سے جدا ہو جائے۔ چنانچہ دو خبیثوں کے سوا تمام بنی اسرائیل قارون سے الگ ہوگئے۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے زمین کو حکم دیا کہ اے زمین! تو اس کو پکڑ لے۔ تو قارون ایک دم گھٹنوں تک زمین میں دھنس گیا پھر آپ نے دوبارہ زمین سے بھی فرمایا تو وہ کمر تک زمین میں دھنس گیا۔ یہ دیکھ کر قارون رونے اور بلبلانے لگا اور قرابت ورشتہ داری کا واسطہ دینے لگا۔ مگر آپ نے کوئی التفات نہ فرمایا۔ یہاں تک کہ وہ بالکل زمیں میں دھنس گیا۔ دو منحوس آدمی جو قارون کے ساتھی ہوئے تھے لوگوں سے کہنے لگے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قارون کو اس لئے دھنسا دیا ہے کہ تاکہ قارون کے مکان اور اس کے خزانوں پر خود قبضہ کرلیں۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ قارون کا مکان اور خزانہ بھی زمین میں دھنس جائے۔ چنانچہ قارون کا مکان جو سونے کا تھا اس کا سارا خزانہ سبھی زمین میں دھنس گئے۔(خازن ج ۳ ص ۴۴۲-۴۴۳)
اسی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مقدس میں فرمایا ہے:
فَخَسَفْنَا بِهٖ وَ بِدَارِهِ الْاَرْضَ- فَمَا كَانَ لَهٗ مِنْ فِئَةٍ یَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِۗ-وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَ۔(القصص آیت نمبر81)
ترجمہ: تو ہم نے اُسے اور اُس کے گھر کو زمین میں دھنسادیا تو اس کے پاس کوئی جماعت نہ تھی کہ اللہ سے بچانے میں اس کی مدد کرتی اور نہ وہ بدلہ لے سکا۔ (کنزالایمان)
امام اعظم پر الزام تراشی کی ناکام سازش:
اسی طرح ایک بار امام ابو حنیفہ کے حاسدوںنے چاہا کہ ان کی شہرت کو دھبہ لگائیں اور بدنام کریں۔اس گھنائونے ارادے سے ایک عورت کو کچھ مال دے دلاکر کہا کہ ابو حنیفہ کو رات کے وقت کسی طریقے سے اپنے گھر بلالو اور پھر لوگوں پر ظاہر کرو کہ انہوں نے تمہاری آبروریزی اور بے عزتی کا ارادہ کیا تھا۔چنانچہ پچھلی رات کو جب حضرت امام صاحب نماز صبح کے ارادے سے جامع مسجد تشریف لے جا رہے تھے تو وہ عورت اس ناپاک منصوبے کے تحت آپ کے سامنے آکھڑی ہوئی اور کہنے لگی کہ میرا خاوند سخت بیمار اور قریب المرگ ہے، وہ چاہتا ہے کہ کچھ وصیت کرے اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں وصیت کے پہلے ہی اس کا انتقال نہ ہو جائے۔ مہربانی کرکے ذرا آپ میرے ساتھ چلیں۔ چنانچہ آپ اس کے ہمراہ اس کے گھر میں داخل ہوئے۔جیسے ہی آپ گھر میں داخل ہوئےاس نے دروازہ بند کر لیا، چلانے اور شور کرنے لگی۔ امام صاحب کے مخالف اور حسد کرنے والے جو اسی تاک اور گھات میں تھے، فوراً آپہنچے اور امام ابو حنیفہ اور اس عورت کو گرفتار کرکے خلیفہ کے پاس لے گئے۔خلیفہ نے حکم دیا کہ طلوع آفتاب تک ان دونوں کو قید خانے میں رکھو۔ امام صاحب قید خانے میں نماز پڑھنے لگے۔ وہ عورت نادم اور شرمندہ ہوئی اور لوگوں نے جوکچھ اسے سکھایا پڑھایا تھا، آپ سے صاف صاف بیان کردیا۔امام صاحب نے اس سے کہا کہ داروغہ جیل و نگران سے جا کر کہو کہ مجھے ایک ضرورت پیش آئی ہے۔ میں جاتی ہوں اور ابھی لوٹ آؤں گی۔ یہ کہہ کر ام حماد یعنی میری اہلیہ کے پاس جاؤ اور فوراً سارا ماجرا بیان کرکے ان سے کہہ دو وہ میرے پاس اسی وقت چلی آئیں اور تو چلی جا۔
وہ عورت بات سمجھ گئی۔ اس نے ایسا ہی کیا اور حضرت امام صاحب کی اہلیہ محترمہ آگئیں۔ جب آفتاب نکلا تو خلیفہ نے امام صاحب اور عورت کو طلب کیا اور امام صاحب سے کہا: کیا تمہیں اجنبیہ عورت کے ساتھ خلوت میں رہنا جائز تھا؟امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا: فلاں شخص کو میرے پاس بلا دیجئے، یعنی اپنے خسر کو بلوا بھیجا۔ جب وہ آئے تو آپ نے اپنی زوجہ کا منہ کھول کر انہیں دکھلا دیا اور پوچھا کہ یہ کون ہے؟انہوں نے اپنی بیٹی کو دیکھ کر پہچان لیا اور فرمانے لگے: یہ میری بیٹی ہے، میں نے امام ابو حنیفہ کے ساتھ اس کا نکاح کیا ہوا ہے۔ پس اس طرح حق جل شانہٗ نے امام صاحب کے مقام کو اونچا کیا اور ان کی عزت و آبرو بچا لی۔
حضرت سعد کے مخالفین کا انجام:
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: شَكَا أَهْلُ الْكُوفَةِ سَعْدًا إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَعَزَلَهُ، وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْهِمْ عَمَّارًا. فَشَكَوْا حَتَّى ذَكَرُوا أَنَّهُ َلا يُحْسِنُ يُصَلِّي. فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: يَا أَبَا إِسْحَاقَ! إِنَّ هَؤُلاَءِ يَزْعُمُونَ أَنَّكَ لاَ تُحْسِنُ تُصَلِّي! قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: أَمَّا أَنَا، وَاللَّهِ فَإِنِّي كُنْتُ أُصَلِّي بِهِمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا أَخْرِمُ عَنْهَا. أُصَلِّي صَلاَةَ الْعِشَاءِ، فَأَرْكُدُ فِي اْلأُولَيَيْنِ، وَأُخِفُّ فِي اْلأُخْرَيَيْنِ. قَالَ: ذَاكَ الظَّنُّ بِكَ يَا أَبَا إِسْحَاقَ. فَأَرْسَلَ مَعَهُ رَجُلاً أَوْ رِجَالاً إِلَى الْكُوفَةِ، فَسَأَلَ عَنْهُ أَهْلَ الْكُوفَةِ، وَلَمْ يَدَعْ مَسْجِدًا إِلاَّ سَأَلَ عَنْهُ، وَيُثْنُونَ مَعْرُوفًا، حَتَّى دَخَلَ مَسْجِدًا لِبَنِي عَبْسٍ. فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ أُسَامَةُ بْنُ قَتَادَةَ، يُكْنَى أَبَا سَعْدَةَ، قَالَ: أَمَّا إِذْ نَشَدْتَنَا، فَإِنَّ سَعْدًا كَانَ لاَ يَسِيرُ بِالسَّرِيَّةِ، وَلاَ يَقْسِمُ بِالسَّوِيَّةِ، وَلاَ يَعْدِلُ فِي الْقَضِيَّةِ. قَالَ سَعْدٌ: أَمَا وَاللَّهِ َلأَدْعُوَنَّ بِثَلاَثٍ: اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ عَبْدُكَ هَذَا كَاذِبًا، قَامَ رِيَاءً وَسُمْعَةً، فَأَطِلْ عُمْرَهُ، وَأَطِلْ فَقْرَهُ، وَعَرِّضْهُ بِالْفِتَنِ. وَكَانَ بَعْدُ إِذَا سُئِلَ، يَقُولُ: شَيْخٌ كَبِيرٌ مَفْتُونٌ، أَصَابَتْنِي دَعْوَةُ سَعْدٍ. قَالَ عَبْدُ الْمَلِكِ: فَأَنَا رَأَيْتُهُ بَعْدُ قَدْ سَقَطَ حَاجِبَاهُ عَلَى عَيْنَيْهِ مِنْ الْكِبَرِ، وَإِنَّهُ لَيَتَعَرَّضُ لِلْجَوَارِي فِي الطُّرُقِ يَغْمِزُهُنَّ۔(بخاری شریف حديث نمبر ۴۵۵)
ترجمہ:حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اہل کوفہ نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے شکایت کی۔ اس لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو معزول کر کے سیدناعمار رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا حاکم بنایا، تو کوفہ والوں نے سعد کے متعلق یہاں تک کہہ دیا کہ وہ تو اچھی طرح نماز بھی نہیں پڑھا سکتے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بلا بھیجا۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ اے ابواسحاق! ان کوفہ والوں کا خیال ہے کہ تم اچھی طرح نماز نہیں پڑھا سکتے ہو۔ اس پر آپ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! میں تو انہیں نبی کریمﷺ ہی کی طرح نماز پڑھاتا تھا، اس میں کوتاہی نہیں کرتا عشاء کی نماز پڑھاتا تو اس کی دو پہلی رکعات میں قراءت لمبی کرتا اور دوسری دو رکعتیں ہلکی پڑھاتا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے ابواسحاق! مجھ کو تم سے امید بھی یہی تھی۔ پھر آپ نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک یا کئی آدمیوں کو کوفہ بھیجا۔ قاصد نے ہر ہر مسجد میں جا کر ان کے متعلق پوچھا۔ سب نے آپ کی تعریف کی لیکن جب مسجد بنی عبس میں گئے تو ایک شخص جس کا نام اسامہ بن قتادہ اور کنیت ابوسعدہ تھی کھڑا ہوا۔ اس نے کہا کہ جب آپ نے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا ہے تو سنئے سعد نہ فوج کے ساتھ خود جہاد کرتے تھے، نہ مال غنیمت کی تقسیم صحیح کرتے تھے اور نہ فیصلے میں عدل و انصاف کرتے تھے۔حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ( یہ سن کر ) فرمایا کہ اللہ کی قسم میں ( تمہاری اس بات پر ) تین دعائیں کرتا ہوں۔ اے اللہ! اگر تیرایہ بندہ جھوٹا ہے اور صرف ریا و نمود کے لیے کھڑا ہوا ہے تو اس کی عمردراز کر اور اسے خوب محتاج بنا اور اسے فتنوں میں مبتلا کر۔ اس کے بعد ( وہ شخص اس درجہ بدحال ہوا کہ ) جب اس سے پوچھا جاتا تو کہتا کہ ایک بوڑھا اور پریشان حال ہوں مجھے سعد رضی اللہ عنہ کی بددعا لگ گئی۔ عبدالملک نے بیان کیا کہ میں نے اسے دیکھا اس کی بھویں بڑھاپے کی وجہ سے آنکھوں پر آ گئی تھی، لیکن اب بھی راستوں میں وہ لڑکیوں کو چھیڑتاتھا۔

Spread the love

Check Also

بعض دارالافتا اور وہاں کے مفتیوں کے حالات

بعض دارالافتا اور وہاں کے مفتیوں کے حالات از:ابوالعطر محمد عبدالسلام امجدی برکاتی ۔ متھلابہاری …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔