بعض دارالافتا اور وہاں کے مفتیوں کے حالات
از:ابوالعطر محمد عبدالسلام امجدی برکاتی ۔ متھلابہاری نگرپالیکا،تاراپٹی،دھنوشا(نیپال)
آج دارالافتا اور ان کے مفتیوں کا جائزہ لیا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ بھی بٹ چکے ہیں اور عوام بھی اپنے اپنے حصہ کا درالافتا اور مفتی منتخب کرچکی ہے اور ان دارالافتا کے مفتیوں کا انداز و طرز اور لب و لہجہ بھی یہ بتاتا ہے کہ انہوں نے بھی اپنے دارالافتا کے لئے افراد چن رکھا ہے ،جن میں کچھ ان کے اپوزیشن والے ہوتے ہیں اور کچھ اپنی پارٹی کے جیسے سیاسی پارٹیوں میں ہوتا ہے۔(الاماشاءاللہ) ۔جن کو وہ اپوزیشن سمجھ بیٹھے ہیں اگر ان کے خلاف استفتا آیا تو گھما پھر ا کر،منطقی داؤ پیچ کے ذریعہ یا تو مسئلہ کو ہی پیچیدہ بنادیتے ہیں ، یا متعصب قلم کی سیاہی سے اپوزیش والوں پر ایسا حکم لگا دیتے ہیں جو شریعت کی نظر میں ہی درست و جائز نہ ہو اور پھر ایسے فتویٰ سے عوام و معاشرہ میں بدگمانی کی لہر پیداہوجاتی ہے،آپسی اختلاف کابازار گرام ہوجاتا ہے اور لوگ ایک دوسرے سے جدا ہوجاتے ہیں اور مسلمان پھر کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں۔اور یہ اب ہمارے نیپال میں بھی ہونے لگا ہے۔جس کی کئی نظریں ہیں،اہل فہم بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی اور برادری والوں کا استفتا دوسری برادری کے مفتی کے یہاں پہنچا تحریری یا صوتی واٹساپ پر تو یہ کہہ کر ٹال دیا گیا کہ ان کے اپنے برادری کے فلاں بڑا مفتی ہیں ان سے پوچھئے۔اور ایسا ہواہے نیپال میں۔اور کچھ فتویٰ دینے والے تو پارٹی بدلتے ہی رہتے ہیں اور اس ہیرا پھیری کا جوخسارہ ہوتا ہے مت پوچھئے۔
یہی دیکھ لیجئے کہ پہلے جوفتویٰ اپوزیشن والے کے خلاف دیا تھا اب اسی اپوزیشن گروپ میں جاملنے کے بعد دوسرا فتویٰ آجاتا ہے۔اور یہ بھی دور نیپال میں چشم فلک نے دیکھ لیا ہے۔اپنا ہے بندہ تو حرام و کفر کی صورت میں بھی حیلہ و تاویل غیر شرعی کا سہارا لے کر بچا لیا جاتا ہے، جبکہ اسی بندہ سے معتمد دارالافتا کے معتبر مفتی توبہ کروالیتے ہیں۔
اور اگر بندہ اپنا نہیں ہے،اپنی پارٹی اور گروپ کا نہیں ہے ،اپنے ثنا خوانوں میں سے نہیں ہے تو اگرچہ ہی وہ بندہ کتنی ہی عظیم شخصیت کیوں نہ ہو تواب حضور والا کی تاویل کے سارے دروازے بند،حیلہ کا خزانہ خالی ہوجاتا ہے اور تکفیر یا گمراہی اور ناجائز و گناہ کے احکام کی تنفیذ ان کے قلم سے ہوجاتی ہے۔
ہمارے دَور میں ڈالیں خِرد نے اُلجھنیں لاکھوں جنوں کی مُشکلیں جب ہوں گی آساں ہم نہیں ہوں گے
نہ تھا اپنی ہی قسمت میں طلوعِ مہر کا جلوہ سحر ہو جائے گی شامِ غریباں ہم نہیں ہوں گے
اللہ کرے اب ایسا دور نہ دیکھناپڑے اور ارباب فتویٰ کے اندر دعوت و تبلیغ کا جذبہ بھی بیدار ہوجائے اور وہ کسی ایک خاص طبقہ ،یا برادری اور گروپ کے مفتی بن کر نہ متعارف ہوں اور نہ رہیں بلکہ وہ اہل سنت کے ہر طبقہ و برادری کے مفتی ہوں اور اپنے غیر جانبدارانہ شرعی فتویٰ سے دعوت و تبلیغ اور احکام شرع کی اشاعت و تشہیر کا خوبصورت ،محبوب و مطلوب فریضہ انجام دینے میں ایک لمحہ اور ذرہ برابر بھی کوتاہی نہیں کریں گے۔وہ یہ بھی عہد کرلیں کہ وہ نائبین و وارثین انبیائے کرام بن کر اور نبی آخر الزماں رسول اکرم ﷺ کی سچی نیابت کا حق ادا کرنے کے لئے رسول اقدس ﷺ کے لئے اللہ جل جلالہ کی طرف سے اس ارشاد ’’وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولًا‘‘ ۔ (نساء: ۷۹) کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر اس شعبہ کو اپنی دعوت و تبلیغ کا محور و مرکز بنائیں گے جسے رسول اللہ ﷺ نے اختیار فرمایا۔
دارالافتا کے مسند نشینوں کی صرف اتنی سی ذمہ داری نہیں کہ ان حضور والاکے پاس استفتا آیا اور یہ صاحب وضو کا لوٹا پھینک کر فورا جواب دینے کے لئے قلم سنبھالا اور جھٹ سے جواب لکھ دیا،نہیں یہ وصف تو قطعی دارالافتا کے مفتیوں کا نہیں ہے اور یہ سبھی جانتے ہیں مگر اس کے باوجود اکثر و بیشتر ایسا ہوتا ہے اور جس کے منفی اثرات و نتائج اور ان کی تباہ کاریاں بھی عیاں ہیں۔اس لئے ان کے اندر بہت سی خوبیوں کے ساتھ اخلاص ،قوت تدبر، احتیاط،جذبہ دینی،معاشرہ کو آپس میں مربوط کرنے اور دعوت و تبلیغ جیسی خوبیوں اور مقاصد حسنہ کی طرف بھی نظر ہونی چاہئے تب جاکر فتویٰ کی عزت بھی بچی رہے گی اور اس پر قوم کا اعتماد بھی اور ایک خوبصورت دینی معاشرہ کی تشکیل بھی متوقع ہوگی اور جو علما بیزاری کی بو لوگوں میں پائی جاتی ہے وہ بھی ختم ہوگی ان شاءاللہ تعالیٰ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کے ہر طبقہ تک پہنچ کر کلمہ توحید کی دعوت دی ،اپنی رسالت و نبوت کا پیغام پہنچایا۔حضور اکرم ﷺ کا دعوت و تبلیغ کا جوانداز و اسلوب لاجواب تھا وہ تاریخ کی کتابوں میں اور سیرت کے ابواب میں چاندو سورج کی طرح چمک اور دمک رہا ہے،اسے اپناتے ہوئے ہمیں اپنا فرض منصبی پورا کرنا چاہئے۔نبی کریم ﷺ نے مشرکوں کو، یہودیوں کو ، عیسائیوں کو ، منافقین کو مجوسیوں کو ، پادریوں کو ،ہر مذہب کے اچھے برے افراد کو، ہرجابر وظالم کو ،سرکش و ہٹ دھرم کو، خویش و اقارب کو، خواتین کو ،بوڑھے اور جوانوں کو ، بچوں، بیماروں اور جاں بلبوں کو ، کاشت کاروں کو،تاجروں اور سوداگروں کو ، فقراء کو،اغنیا کو ،شہری کو اور بدويوں کو بھی ،میلہ و بازار میں،شاہوں کے دربار میں،پہاڑوں کی چٹانوں پر،مساجد میں،گھروں میں،حج و عمرہ کے موسم میں ،وفود و سفرا کو، مختصر یہ کہ رحمت عالم ،داعی برحق ،نبی اکرم ﷺ نے ہر طبقہ کو دعوت دین حق دی ہے اور حسن اخلاق ،الفت و شفقت سے دین کو عام فرمایا اور ہمیں بھی اسی انداز میں دین کی تبلیغ کا حکم فرمایا اور جس نے بھی اس نبوی اسلوب اور آپ ﷺ کے اس پیارے منہج کو اپنا کر نیکی اور دین اسلام اور اس کی تعلیمات کی تبلیغ و ترسیل کی اسے کامیابیاں ملی ہیں اور تاریخ نے اس کے اس انداز تبلیغ کو صفحہ قرطاس پر منقش کردیا ہے۔
مگر ہمارے اکثر یا بعض دارالافتا کا رویہ تعصب و تنفر اور تشتت و تشدد والا ہے جو منہج نبوی کے خلاف اور قرآنی اصول﴿ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ﴾ (النحل: ۱۲۵)سے ہٹ کر ہے جو کہ بہت بڑا ا لمیہ اور افسوسناک پہلو ہے۔
اور حیرت بالائے حیرت یہ کہ اسی کو وہ بہت بڑاکارنامہ تصور کربیٹھے ہیں اور اپنی محدود دنیا سے باہر جھانکنے کا نام نہیں لیتے اور بہت ہوگیا تو روایتی غیر نفع بخش اسٹیجوں تک پہنچ گئے اور بس۔ہاں کچھ مفتیان کرام اور دعاۃ مخلصین آج بھی اپنے وجود پرنور سے دینی معاشرہ کو زندہ و تابندہ رکھے ہوئے ہیں اور کچھ فتویٰ کی زد میں آکر کرا ہ رہے ہیں۔
یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ کچھ دارالافتا کے مفتیان کرام بعض مسائل و حالات میں شریعت کی جانب سے دی گئی رعایت و سہولت کا ایسا بیجا اور غلط استعمال و انطباق کرتے ہیں کہ جہاں بآسانی شرعی اصول و احکام پر عمل کیا جاسکتا ہے وہاں بھی سہولت و تعامل کا بہانہ بنا کرامور محرمہ میں بھی جواز کا فتویٰ دے کر بہت سے گناہوں کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ اسی طرح نمسکار و نمستے کو دیکھ لیجئے کچھ لوگ یہ بہانہ بناکر اپنے ہم فکر و خیال والے درالافتا کے فتویٰ دینے والوں سے تعامل و مجبوری کا حوالہ دے کر جواز کا فتویٰ حاصل کرنے کی سعی کرتے ہیں،جبکہ ملک نیپال جیسے ملک جہاں حیلہ ساز مجبوری کا بہانہ بنا تے ہیں ہم دیکھتے ہیں کسی طرح کی مجبوری نہیں ہوتی ہے ، ہاں ایک آدھ جگہ ہے تو شریعت نے اس کے لئے احکام واضح کردئے ہیں،مگر اکثریت مجبوری نہیں بلکہ حیلہ سازی کا کرشمہ سازی ہوتی ہے۔اگر آج نمسکار و قشقہ کو جائز قرار دیا جائے تو کل بی جے پی والوں کے جبری اور مشہور جدید طریقے کا سلام جو کہ ہندؤوں کے اجودھیائی پیشوا کے نام پر رائج کیا گیا ہے اسے بھی جائز کروانے کی کوشش کریں گے اور اس طریقہ سلام کے کفر ہونے میں کسی کو بھی ایک ذرہ نہ تردد ہوگا اور نہ شبہ ۔اسی طرح قشقہ کے بعد اور بھی شعائر کفار کو مجبوری کا بہانہ بنا کر جائز کروالیا جائے گا۔
ارے بھائی نمسکار و نمستے والے غیر مسلم اپنے شعار کو عام تو بڑی آسانی سے کر لیتے ہیں اور آپ ہیں کہ انہیں کو قبول کرنے کے بہانے ڈھونڈھتے ہیں،اس کی جگہ آپ اپنے کم سے کم لفظ آداب کو عام کیجئے جس میں بہت حد تک حفظ و امان ہے۔اور جہاں تک ہوسکے یہ کہنے سے بھی بچئے۔بچنے والوں کے لئے ہزار راستے ہیں اور بہانہ والوں کے لئے ایک بھی مشکل ہے۔اس لئے شریعت کے معاملے میں دخل اندازی کے بجائے شریعت کے اصول پر عمل کرکے اپنی زندگی کو ہرطرح کے مشکلات سے بچائے اور بہانہ بازی کے ذریعہ دشوار نہیں بنائے۔تعامل و مجبوری کا بہانہ بناکر خود کو گرداب بلا میں نہ ڈالئے۔
شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے