گستاخان حضور شیرنیپال اپنے انجام کی فکر کریں:
ابوالعطر محمد عبدالسلام امجدی برکاتی
متھلا بہاری نگر پالیکا،تاراپٹی مشرقی محلہ،دھنوشا(نیپال)
جو رکھتے ہیں دلوں میں بغض و کینہ جیشِ ملت سے
یقیناً ہیں وہ عاری عقل سے، فہم و فراست سے
عظیم الشان داعی تھے، مبلغ تھے مرے مرشد
محبت تھی انہیں اسلام سے، دین و شریعت سے
حضور شیرنیپال علیہ الرحمہ کی حیات میں اور آپ کے وصال کے بعد بھی کچھ لوگوں نے آپ کی شان میں تنقیص و توہین کی ، ان لوگوں کا کیا حال ہوا اور ہو رہا ہے وہ جگ ظاہر ہے،تاہم حضور شیرنیپال جیسے عالم ربانی کی توہین و تحقیر کرنے کا شرعی حکم بھی بیان کیا جاتا ہے تاکہ اس طرح کی حرکت کرنے والے اپنے انجام کی فکر کریں اورپھر کسی بھی عالم ربانی کے ساتھ ایسی جرأت کرکے اپنی آخرت تباہ نہ کریں۔
یقینا حضو شیر نیپال حضرت علامہ الشاہ مفتی جیش محمد صدیقی برکاتی علیہ الرحمہ ایسے جید و متدین فقیہ عصر اور مقبول و محبوب شیخ کامل تھے کہ آج ڈھونڈھنے پر بھی ملک نیپال میں ایسے عالم ربانی اور شیخ روحانی نہیں ملیں گے۔آپ ان حق گو و حق بیں، مخلصین علماء دین ، فقہاء شرع متین اور اولیاء کاملین میں سے تھے جن کی مدح و فضل میں قرآنی آیات اور نبوی احادیث وارد ہوئیں ہیں۔جن کی زیارت بھی عبادت اور ان کی مجلس علمی میں بیٹھنا بھی عبادت ۔ملک نیپال میں آپ جیسانہ کوئی عالم و فقیہ دیکھااور نہ کسی کو علم و فضل ، تصلب فی الدین ، استقامت علی الحق اور تقویٰ و طہارت میں آپ کا نظیر و مساوی پایا ۔ ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء۔دین و سنیت اور مسلک اعلیٰ حضرت کی اشاعت و تبلیغ میں جو مثالی کارنامے انجام دیئے ہیں وہ کسی ذی فہم سے مخفی نہیں، بلکہ یو ں کہا جائے کہ ملک نیپال میں جو آج سنیت برقرار ہے وہ آپ ہی جیسے دین کے داعی و مبلغ کی کدو کاوش ، شب و ر و ز کے جہد مسلسل اور عمل پیہم کا نتیجہ ہے ۔
آپ فقہ و حدیث ، شریعت و طریقت اور زہد و ورع میں ایسا تلاطم خیز سمندر تھے جس کا کوئی ساحل نہیں ، عظمت و رفعت ، شر ف و بزرگی کا ایسا فلک بوس مینار تھے کہ جس کی پیمائش ما و شما کے مقدور سے بیروںاور وہم و گمان سے فزوں تر ہے۔آپ ایسے بااخلاق و باعمل عالم دین تھے کہ جن کے بارے میں حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے فرمایا ’’ مولانا جیش محمد صدیقی ایک قابل عالم دین ہیں ، ان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں‘‘ ، حضور نظمی میاں مارہروی علیہ الرحمہ نے فرمایا ’’حضور جیش محمد صدیقی صاحب شیرنیپال کی مخالفت کرنے والا ہم برکاتیوں کا مخالف ہے ، آپ کا پسینہ جہاں گرے گا میرا خون وہاں گرے گا‘‘ اور حضور تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خاں ازہری علیہ الرحمہ بریلی شریف نے فرمایا’’مولانا جیش محمد ،محمد کا لشکر ہیں، محمد رسول اللہ کے دین کے سپاہی نہیں بلکہ دین کے لشکر ہیں، آج جو ان کے جھنڈے کے نیچے رہے گا کل وہ محمدرسول اللہ کے جھنڈے کے نیچے رہے گا‘‘ ۔
آپ کے انہیں خدمات و کارنامے اور علمی جلالت و زہد وورع کو دیکھ کر حضور سید العلماء اور حضور احسن العلماء علیہما الرحمہ مارہرہ مطہرہ نے خلافت و اجازت سے نوازا اور آپ کے دینی ، ملی وقومی کارناموں کو سراہا ۔اور وصال کی خبر سن کر ملک و بیرون ملک کے علما و مشائخ نے تعزیت نامہ لکھے جن میں آپ کی شخصیت اور علمی خدمات و حیثیت کا اعتراف کیا اور آپ کے لئے ترقی درجات کے لئےدعائیں کیں اور سب نے اہل سنت کا مقتدا و پیشوا مانا اور آپ کے وصال کو اہل سنت کا ناقابل تلافی نقصان لکھا۔اس لئے حضور شیرنیپال جو اہل سنت و جماعت کے مقتدیٰ و مہتدیٰ اور مسلمانان نیپال کے پیشواو امام تھے ان کی اور کسی بھی عالم دین اور اللہ والے کی توہین و تنقیص ، تذلیل و تحقیر دین کی توہین و استہزا ہے اور علماء دین کی توہین و استخفاف علماء کے حقوق کو پامال کرنا ہے اور یہ بمطابق حدیث کھلے منافق کی پہچان ہے۔ عالم دین کی توہین ، سب و شتم بر وجہ علم دین کفر ، بے سبب ظاہر اندیشہ ء کفر اور کسی دنیوی غرض کی وجہ سے ہو تو اشد کبیرہ ہے۔
(۱)کنز العمال ج۱۶ ص۳۲ پر ہے:
لا یستخف بحقھم الا منافق بین النفاق ذوالشیبۃ فی الاسلام و ذوالعلم و معلم الخیر۔
ان کے حق کو ہلکا نہیں جائے گا مگر کھلا منافق، ایک وہ جسے اسلام میں بڑھاپا آیا دوسرا علم والا اور تیسرا بھلائی کا درس دینے والا۔
(۲)طبرانی ج۸ص ۲۳۸ پر ہے:ثلاثۃ لایستخف بحقھم الا منافق ۔
تین لوگوں کے حق کو ہلکا نہ جانے گا مگر منافق۔
(۳)اللمعجم الکبیر للطبرانی ، مسند احمد ، مستدرک میں ہے:لیس من امتی من لم یعرف لعالمنا حقہ۔
جو ہمارے عالم کا حق نہ پہچانے وہ میری امت سے نہیں ۔
(۴)تفسیر کبیرللامام فخر الدین الرازی ج۱ ص ۲۸۴پر ہے:
من اھان العالم فقد اھان العلم ومن اھان العلم فقد اھان النبی ومن اھان النبی فقد اھان جبریل و من اھان جبریل فقد اھان اللہ ومن اھان اللہ اھانہ اللہ یوم القیٰمۃ۔
جس نے عالم دین کی توہین کی بے شک اس نے علم دین کی توہین کی اور جس نے علم دین کی توہین کی تحقیق اس نے نبی کی توہین کی اور جس نے نبی کی توہین کی اس نے جبریل کی توہین کی اور جس نے جبریل کی توہین کی بلا شبہ اس نے اللہ تعالیٰ کی توہین کی اور جس نے اللہ تعالیٰ کی توہین کی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے ذلیل و رسوا کرے گا۔
(۵)اسی میں ج۱ ص ۲۷۳پر ہے:من استخف بالعالم اھلک دینہ۔
جس نے عالم دین کی تحقیر کی اس نے اپنا دین ہلاک کرلیا۔
(۶)عالمگیری ج۲ ص ۳۴۳ میں ہے:یخاف علیہ الکفر اذا شتم عالما او فقیھا من غیر سبب۔
اس پر اندیشہ کفر ہے جب کسی عالم دین کو گالی دے یا کسی فقیہ (مفتی دین )کو بغیر کسی سبب ظاہر کے بر ا کہا۔
(۷)خلاصۃ الفتاویٰ ج۴ ص ۳۸۸ میں ہے:
من ابغض عالما من غیر سبب ظاھر خیف علیہ الکفر۔
جو کسی عالم دین سے بے کسی سبب ظاہر کے بغض رکھے اس پر کفر کا اندیشہ ہے۔
(۸)اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فتاویٰ رضویہ ج۶ ص ۱۲میں فرماتے ہیں:
عالم دین کی شان میں ناشائستہ الفاظ استعمال کرنے والوں کے لئے یہی بس ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو کھلا منافق بتایا۔
(۹)اسی کے ص ۱۸۲ پر ہے:
عالم کی توہین اگر بوجہ علم دین ہے بلا شبہ کفر ہے کمافی الخلاصۃ و منح الریاض۔ ورنہ اشد کبیرہ ہونے میں شک نہیں۔
(۱۰)اور اسی کے ص ۱۵۴پر ہے:
ہاں مطلقا علماء کو یا خاص کسی عالم کو بوجہ دین برا کہنے سے آدمی کافر ہو جاتا ہے ، عورت فوراًنکاح سے نکل جاتی ہے۔
(۱۱)اور فتاویٰ رضویہ ج۱۰ ص۱۴۰ پر ہے:
اگر عالم دین کو اس لئے براکہتا ہے کہ وہ عالم دین ہے جب تو صریح کافر ہے اور اگر کسی دنیوی خصومت کی بناء پر برا کہتا ہے تو سخت فاجر و فاسق ہے۔
(۱۱)اور اسی کے ص۱۳۸پر ہے:
عالم دین سنی صحیح العقیدہ کہ لوگوں کو حق کی طرف بلائے اور حق بتائے محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نائب ہے ، اس کی تحقیر معاذ اللہ محمد رسول اللہ کی توہین ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جناب میں گستاخ موجب لعنت الٰہی وعذاب الیم ہے۔
(۱۲)اسی میں ج ۶ ص ۱۲ پر مجمع الانہر کے حوالہ سے ہے:
من قال للعالم عویلم علیٰ وجہ الاستخفاف کفر۔جو شخص عالم دین کو حقارت سے مولویا کہے وہ کافرہے۔
اللہ کے ولی حضو شیر نیپال کی توہین ہلاکت کا باعث ہے:
حضور شیر نیپال اپنی حیات میںروئے زمین پر بلا ریب و شبہ ان ہستیوں میں سے ایک تھے جنہیں اللہ رب العزت نے اپنے فضل و کرم سے اپنے نبی کریم کے صدقہ میں ولایت کے تاج سے نواز تھا۔آپ کا کردارو عمل ، معمولات لیل و نہار ، سیرت و صورت قوم مسلم کے لئے شمع ہدایت اور قندیل فروزاں ہے ،اب اگر کوئی آپ کی ذات و شخصیت ، سیرت و کردار اور ایمان پر حملہ کرنے کی ناپاک کوشش و جسارت کرتا ہے تو یقینا وہ لوگوں کو ہدایت کی روشنی سے ضلالت کی تاریکی کی طرف لے جانا چاہتا ہے اور یہ نہایت مذموم و قبیح فعل ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَٱلَّذِينَ كَفَرُوٓاْ أَوْلِيَآؤُهُمُ ٱلطَّٰغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ ٱلنُّورِ إِلَى ٱلظُّلُمَٰتِ ۗ أُوْلَٰٓئِكَ أَصْحَٰبُ ٱلنَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَٰلِدُونَ۔(البقرة – 257)اور ایک اللہ والے کی شان میں گستاخی کرنا گناہ عظیم ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے جنگ کرنااور عاقبت و آخرت تباہ و برباد کرنا ہے۔
حدیث قدسی میں ہے’’من عادی لی ولیا فقد آذنتہ بالحرب ‘‘ (مشکوٰۃ)
امام یافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:
ومن عادیٰ اولیاء اللہ فکانما عادی اللہ وان کان لم یبلغ حد التکفیر الموجب للخلود فی النار (الیواقیت والجواہیرص۹)
عالم دین اوراللہ تعالیٰ کے کسی ولی سے بغض و عداوت اللہ و رسول کے غضب و ناراضگی کا باعث ہے، ان کی شان میں غیبت و بدگوئی ، افتراء و اتہام ، ان کی طرف نسبت کذب اور زبان درازی و تحقیر سلب ایمان کا خطرہ و اندیشہ پیدا کرتی ہے۔
حضرت عبداللہ قرشی فرماتے ہیں:
من غض من ولی اللہ عزوجل ضرب فی قلوبھم بسھم مسموم ولم یمت حتیٰ تفسد عقیدتہ و یخاف علیہ من سوء الخاتمۃ۔(الیواقیت والجواہیرص۸)
جو خداکے کسی ولی کی تحقیر کرتا ہے اس کے دل میں ایک زہر آلود تیر مارا جاتا ہے اور مرنے سے پہلے اس کا عقیدہ فاسد ہو جاتا ہے اور اس کا خاتمہ خراب ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔
حضرت ابو تراب بخشی فرماتے تھے :
اذاالف القلب الاعراض عن اللہ صحبتہ الوقیعۃ فی اولیاء ہ۔ (الیواقیت والجواہیرص۸)
جب دل میںخدا سے روگردانی کی طرف میلان پیدا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ اولیاء کی شان میں بدگوئی لگ جاتی ہے۔
حضرت سراج الدین مخزومی فرماتے ہیں:
ومن ابغضھم تنصر ومات علیٰ ذلک ومن اطلق لسانہ فیھم بالسب ابتلأ اللہ بموت القلب۔ (الیواقیت والجواہیرص۸)
ان سے (یعنی اولیاء سے)بغض رکھنے والے کے دین کی بربادی یقینی ہے، جو ان کا دشمن ہوا اسلام سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا ، نصرانی ہو گیا اور اس پر مرگیا ، جس نے بدگوئی سے ان کے بارے میں زبان درازی کی خدانے ا س کو مردہ دلی کی بلا میں ڈال دیا۔
اسی میں ص۹ پر ہے:
ولکن الذی عندنا انہ یحرم علیٰ کل غافل ان یسیء الظن باحد من اولیاء اللہ عز وجل ویجب ان یؤل اقوالھم و افعالھم مادام لم یلحق بدرجتھم ۔
یعنی ہمارے نزدیک ہر اس شخص پر جس کی آنکھ پر غفلت کا پردہ پڑا ہے حرام ہے کہ اللہ عز وجل کے کسی ولی کے ساتھ بدگمانی کرے اور واجب ہے کہ جب تک ان کے مقام کو نہ پہنچے ان کے اقوال و افعال کی تاویل کرے۔
امام سنوسی متوفیٰ ۸۹۵ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:
جو شخص اپنے سر میں دماغ اور دماغ میں عقل و شعور کا جلوہ رکھتا ہے اس زمانہ پر محن میں اس کے تمام مشغلوں سے زیادہ اہم اور قابل توجہ یہ ہے کہ وہ اس چیز میں جد وجہد کرے جس کے ذریعے وہ اپنی جان کو ہمیشگی کی جہنم سے بچائے۔ اور یہ بغیر اس کے نہیں ہوسکتا کہ آدمی اسلامی عقائد کو اسی طور پر مضبوط و مستحکم کرے جس طور پر ائمہ اہل سنت معرفت رساصاحبان ِ خیر و فلاح نے بیان فرمایا۔اور کتنے کم ہیں ایسے لوگ جو اس پر آشوب دور میں اسلامی عقائد کو اسلاف اہل سنت کے موافق ٹھوس کریں، جبکہ آج جہالت کا دریا موجیں مار رہا ہے ، باطل بلا کا پھیلا ہوا ہے اور زمین کے ہر گوشے پر حق سے مکرنے ، اہل حق سے جلنے اور باطل کو جھوٹی بناوٹی باتوں اور دھوکے کی باتوں سے آراستہ کرنے کاطوفان بر پا ہے‘‘۔
(شرح ام البراہین ص۶ بحوالہ درس اسلاف برائے دفع اعتساف ص ۹۵)
عدوِ جیشِ ملت چھوڑ دے گستاخیاں، ورنہ
بچائے گا تجھے پھر کون رب کے قہر و ذلّت سے
(معارف حضور شیرنیپال)