فتویٰ شیرنیپال’’ دیہات میں جمعہ کی شرعی حیثیت ‘‘پر ایک تنقید کا محاسبہ
از:ابوالعطر محمد عبدالسلام امجدی برکاتی عفی عنہ
تاراپٹی،دھنوشا(نیپال)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
دیہات میں جمعہ کے حوالے سے ایک فتویٰ حضور شیرنیپال علیہ الرحمہ نے عرصہ دراز قبل ربیع الاول شریف۱۴۱۳ میں یعنی آج سے بتیس سے سال قبل تحریر فرمایا تھا جس میں آپ نے اصل مذہب کے مطابق فتویٰ صادر فرمایا کہ دیہات میں جمعہ کی نماز جائز نہیں،وہاں جمعہ کے دن بھی ظہر ہی فرض ہے۔یہ اور بات ہے کہ بعض یا اکثر دیہاتوں میں ایک مدت سے جمعہ لوگ پڑھتے چلے آرہے ہیںتو اس بارے میں فقہا نے یہی فرمایا کہ اسے بند نہ کیا جائے ، البتہ ظہر پڑھنے کی تاکید کی جائے اور عوام کو نرمی سے اس بارے میں سمجھایا جائے۔ تو اصل مذہب مہذب حنفی میں دیہات میں جمعہ کے حوالے سے وہی حکم ہے جس کی طرف اوپر اشارہ ہوا اور جس کے بارے میں مفصل فتویٰ فقیہ اعظم نیپال ،شیرنیپال مفتی جیش محمد صدیقی برکاتی علیہ الرحمہ نے تحریرفرمایا ،جس کی تصدیق حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے بھی فرمائی اور یہی موقف حضور تاج الشریعہ کا بھی ہے۔ اس کے باجود کوئی کج فکر ایسے دیہات میں بھی جمعہ کے جواز کا قائل ہو اور شدت کے ساتھ لوگوں کو ظہر پڑھنے سے روکے تو پھر اس کا شرعی علاج تو ضروری ہی ہے اور اس کے اس تخریبی اقدام کی پرزور مذمت تو کی جانی چاہئے۔اور ایسے ہی لوگو ں کے مریض دماغ پر حضرت شیرنیپال علیہ الرحمہ کا نوک قلم بغرض جراح و علاج چلا ہے۔
اب رہ گئ بات حضرت امام ابویوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی روایت نادرہ کی تو میں سمجھتا ہوں کہ اس روایت نادرہ کے مطابق بھی ہر دیہات میں جمعہ جائز نہیں ہے۔جوا ز کی صورت میں بھی قریہ کو مصر کے حکم میں داخل کیا گیا ہے،تو یہ کیسے مان لیا جائے کہ نادرالروایہ کے مطابق اس دیہات میں جمعہ کو جائز قرار دیا گیا ہے جس کی آبادی کثیر ہو؟اس روایت کے مطابق تواس کا بڑی آبادی ہونا ہی ثابت ہوا۔تو مفہوم یہی ہوا کہ نہ اصل مذہب کے مطاق دیہات میں جمعہ ہے اور نہ نادر الروایہ کے مطابق ہر دیہات میںجائز۔ نادر الروایہ کے مطابق حکما بڑی آبادی والے دیہات کو مصر کہا گیا ہے ورنہ حقیقۃ ایسی آبادی والے دیہات بھی دیہات ہی ہیں نہ کہ شہر۔اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فتویٰ سے بھی یہی مستفاد ہوتا ہے۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
”ہاں ایک روایت نادرہ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ سے یہ آئی ہے کہ جس آبادی میں اتنے مسلمان مرد ،عاقل ،بالغ ایسے تندرست جن پر جمعہ فرض ہو سکے آباد ہوں کہ اگر وہ وہاں کی بڑی سے بڑی مسجد میں جمع ہوں تو نہ سما سکیں یہاں تک کہ انہیں جمعہ کے لئے مسجد جامع بنانی پڑے ، وہ صحت جمعہ کے لئے شہر سمجھی جائے گی۔
(فتاوی رضویہ ،ج08،ص347،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)
اور مجلس شرعی مبارکپور میں سیمینار ہوا جس کا فیصلہ مجلس شرعی کے فیصل بورڈ نے بریلی شریف میں کیا اس فیصلہ کی توضیح و تصحیح جو حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے کی ہے اس میں بھی نادر الروایہ کے مطابق والی آبادی کو شرعا شہر نہیں مانا گیا ہے ۔(تفصیل کے لئے فیصلہ جات شرعی کونسل آف انڈیا ص478تا479 دیکھیں)
تو اصل حکم دیہات کے بارے میں یہی ہے کہ دیہات میں جمعہ جائز نہیں ، وہاں جمعہ کے دن بھی ظہر ہی پڑھی جائے اور جہاں رائج ہے اسےدفعاللفتنہ بند نہ کیا جائے۔
مبسوط میں ہے:لا تجب الجمعۃ الا علی اھل الامصار والمدائن۔(مبسوط ج1ص345)
ترجمہ:جمعہ صرف شہر اور قصبات کے لوگوں پر فرض ہے۔
اور امام شامی نے قہستانی کے حوالے سے لکھا ہے:
وتقع فرضافی القصبات والقری الکبیرۃ التی فیھا اسواق وفیما ذکرنا اشارۃ الی انہ لا تجوز فی الصغیرۃ۔
(فتاویٰ شامی ج1ص748)
ترجمہ:جمعہ قصبوں اور ان بڑے دیہاتوں میں فرض ہے کہ جن میں بازار ہوں اور اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ چھوٹے دیہات میں نماز جمعہ جائز نہیں۔
اور محقق نیپال،مفتی اعظم نیپال حضور شیرنیپال مفتی جیش محمد صدیقی برکاتی علیہ الرحمہ نے بھی تو اپنے فتوی میں یہی حکم دلائل و براہین کی روشنی میں تحریر فرمایا ہےجسے مفتی محمود عالم خان کماوی صاحب نے ’’دیہات میں جمعہ کے بعد ظہر ‘‘کے نام سے شائع کیا ہے۔اور حضور شیرنیپال علیہ الرحمہ کے تفصیلی فتویٰ کا مآل و ماحصل بھی یہی ہے کہ جو دیہات نادرالروایہ کے مطابق بھی مصریت کے درجہ سے محروم ہوں اور اصل مذہب حنفی کے مطابق تووہ خالص دیہات ہی ہوں( اگرچہ آبادی کثیر ہو) تو وہاں جمعہ کے قیام کی اجازت اور ترک ظہر کا حکم کیسے دیا جاسکتا ہے،جو کہ شرعا ناجائز و حرام ہے۔اور اس شفافیت و صراحت کے باوجود بھی کوئی مولوی شدت کے ساتھ ایسے نرے دیہات میں جمعہ کے جواز کا فتویٰ دے اور عوام الناس کو ظہر پڑھنے سے روکے تو ایسوں کو بے لگام کیسے چھوڑا جاسکتا ہے،خلاف شرع حکم پر اصرار کرنے والے کو اہل حق کا قلم کیسے در گذر کر سکتا ہے ؟خواہ مردہ یا زندہ بہار کا کوئی مولوی قیس ہو ںیا ان کی فکری کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے والایا ان اس کی غیر شرعی روش کی تائید کرنے والا کوئی بھی جبہ و پگڑی والاہو۔جب صاف صاف فقہا ئے کرام علیہم الرحمۃ والرضوان نے فرمادیا کہ دیہات میں جمعہ نہیں بلکہ ظہر ہی واجب و لازم ہے تو ہمیں ان احکام شرعیہ فقہیہ کے سامنے سرتسلیم خم کردینا چاہئےاور فتنہ کے سر ابھارنے کا اندیشہ ہو تو اس کے دبانے کی مناسب تدبیر اور راہیں اختیار کرنی چاہئے نہ کہ حکم شرع کی تبلیغ و ترسیل اور تبیین سے چشم پوشی کرکے کتمان حق کا مجرم بننا چاہئے اور حق گو ، حق نویس مفتی دین شرع متین کے خلاف مورچہ بندی کی جائے، زبان بے لگام کو زحمت دی جائے اور قلم خشک کے اندر اپنی تنگ نظری کی سیاہی ڈال کر اپنی ہی کوتاہ بینی ،سیاہ قلبی اور اہل علم سے استغراق فی الحسد کی سرٹیفیکٹ جاری کربیٹھنا چاہئے۔
خاتم المحققین علامہ محمد امین بن عابدین شامی نقل فرماتے ہیں:
” لو صلوا فی القری لزمھم أداء الظھر“(رد المحتار مع درمختار ،ج03،ص08، مطبوعہ کوئٹہ)
ترجمہ: اگر لوگ (ایسے)گاؤں میں (جہاں جمعہ جائزنہیں) جمعہ ادا کریں تو ان پر ظہر کی نماز ادا کرنا ہی ضروری ہے ۔
اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
’’جمعہ وعیدین دیہات میں ناجائز ہیں اور ان کا پڑھنا گناہ، مگر جاہل عوام اگر پڑھتے ہوں تو ان کو منع کرنے کی ضرورت نہیں کہ عوام جس طرح اﷲ ورسول کا نام لے لیں غنیمت ہے‘‘(فتاوی رضویہ ج8 ص 387 رضافاؤنڈیشن لاہور)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
ومن لا تجب عليهم الجمعة من أهل القرى والبوادي لهم أن يصلوا الظهر بجماعة يوم الجمعة بأذان وإقامة۔
ترجمہ:اور جس پر جمعہ فرض نہیں ہے یعنی گاؤں دیہات والے ان کےلئے ضروری ہے کہ وہ جمعہ کے دن اذان واقامت سےظہر کی نماز باجماعت ادا کریں۔
( فتاویٰ عالمگیریہ، ج 1 ص145 مطبوعہ دارالفکر)
فقیہ ملت مفتی جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
’’جس طرح اور دنوں میں ظہر کی نماز باجماعت پڑھنا واجب ہے ایسے ہی دیہاتوں میں جمعہ کے دن بھی ظہر کی نماز باجماعت پڑھنا ضروری ہے۔‘‘
(فتاوی فیض الرسول ج1 ص 421مطبوعہ شبیر برادر لاہو)
صدرالشریعہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
گاؤں میں جمعہ کے دن بھی ظہر کی نماز اذان و اقامت کے ساتھ باجماعت پڑھیں۔
(بہارشریعت جمعہ کا بیان حصہ 4 ص 779 مکتبۃ المدینہ)
تھوڑا اور واضح طور پر اعلیٰ حضرت کا ارشاد ملاحظہ کرتے ہیں۔سرکار اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:
فتاویٰ رضویہ میں ہے:
دیہات میں جمعہ ناجائز ہے اگر پڑھیں گے گناہگار ہوں گے اور ظہر ذمہ سے ساقط نہ گا۔فی الدرالمختار فی القنیة صلٰوۃ العید فی القری تکرہ تحریما ای لانه اشتغال بما لایصح لان المصر شرط الصحة۔ درمختار میں قنیہ سے ہے کہ عید کی نماز دیہاتوں میں مکروہ تحریمی ہے یعنی ایسی شئ میں مصروف ہونا ہے جو صحیح نہیں، کیونکہ شہر کا ہونا صحتِ عید کے لئے شرط ہے۔اقول فالجمعة اولی لانه فیھا مع ذلک اما ترک الظھر وھو فرض اوترک جماعته وھی واجبة ثم الصلوۃ فرادی مع الاجتماع، وعدم المانع شنیعة اخری غیر ترک الجماعة فان من صلی فی بیته منعز لاعن الجماعة فقدترک الجماعة وان صلوا فرادی حاضرین فی المسجد فی وقت واحد فقد ترکوا الجماعة واتوا بھذہ الشنیعه زیادۃ علیه فیؤدی الٰی ثلث مخطورات بل اربع بل خمس لان مایصلونه لما لم یکن مفترضا علیھم کان نفلاً واداء النفل بالجماعة والتداعی مکروہ ثم ھم یعتقد ونھا فریضة علیھم و لیس کذلک فھذہ خامسة وھذان مشترکان بین الجمعۃ والعیدین۔
اقول: جمعہ بطریق اولی مکروہ تحریمی ہوگا کیونکہ اس جمعہ کی صورت میں ترک ظہر ہوگا جو فرض ہے یا ترک جماعت ہوگا حالانکہ وہ واجب ہے ، باوجود اجتماع اور عدم مانع کے تنہا نماز ادا کرنا ترک جماعت سے الگ خرابی ہے کیونکہ جو جماعت سے الگ گھر میں نماز ادا کرے گا اس نے جماعت ترک کردی اور ایک وقت میں مسجد میں حاضر لوگ تنہا نماز ادا کرتے ہیں تو انھوں نے جماعت ترک کردی اور انھوں نے ایسا عمل کیا جو اس خرابی پر اضافہ ہے پس اب تین بلکہ چار، نہیں بلکہ پانچ ممنوعات لازم آجاتے ہیں کیو نکہ جو نماز انھوں نے ادا کی وہ ان پر فرض نہ تھی بلکہ وہ ان پر نفل تھی اور نفل کو جماعت اور تداعی کے ساتھ اداکرنا مکروہ ہے پھر ان کا اسے اپنے فرض ماننا حالانکہ وہ فرض نہیں یہ پانچویں خرابی ہے اوریہ دونوں چیزیں جمعہ اور عیدین کے درمیان مشترک ہیں۔
(فتاویٰ رضویہ جلد 8 صفحہ 273)
اشرف العلما مفتی اشرف القادری علیہ الرحمہ اپنے ایک مکتوب بنام حضور شیرنیپال علیہ الرحمہ محررہ۱۹؍شعبان المکرم۱۴۱۲ھ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’ایک فتویٰ بریلی شریف کا پیش خدمت ہے ،آپ اس پر اپنا دستخط کردیں۔ اس لئے کہ مظفر پور علاقہ میں کچھ مولوی دیہاتوں میں ظہر باجماعت بعد جمعہ رائجہ کی شدت سے مخالفت کر رہے ہیں اور یہ مخالفت عدم فہم سے ناشی ہے اور کچھ نفس پرستی و انانیت سے۔میرا خیال ہے اس کی فوٹو کاپیاں تقسیم کی جائیںاور مزید علماء اعلام کے دستخط سے اسے مزین کرونگا۔اور آپ اس کی ایک فوٹو کاپی لیکر جب بمبئی کی طرف تشریف لیجائیں تو اس پر علمائے کرام سے دستخط کرائیں اور پھر اسے شائع کردیا جائیگا۔ میں ہجوم افکار اور کثرت کار اور قلت وسائل کی وجہ سے آپ کے دیدار سے رہ جایا کرتا ہوں۔مگر آپ کا روئے زیبا ہمیشہ میرے سامنے رہتا ہے۔۔۔۔اپنی نیک دعاؤں میں اس عاجز فقیر بے نوا کو یاد رکھیں۔مولیٰ عز وجل آپ کا اقبال زیادہ فرمائے۔
خلاصہ یہ کہ حضور شیرنیپال علیہ الرحمہ نے مدلل و مفصل فتویٰ میں دیہات میں جمعہ کے عدم جواز اور ظہر کے قیام و دوام کے حوالے سے جو کچھ تحریر فرمایا ہے وہ بلا شبہ حق و درست ہے،مذہب ظاہرالروایہ کا ترجمان ہے،موقف اعلیٰ حضرت کے موافق اور حضور تاج الشریعہ اور دیگر علمائے حق و انصاف پسندکی تحقیقات کے عین مطابق ہے اور اسے غلط و باطل نہ سمجھے گا مگر تنگ نظراور کینہ پرور۔اللہ تعالیٰ ایسوں کو ہدایت نصیب فرمائے اور اہل علم کی شمع محبت سے ان کے سینوں کو بھی روشن و منور فرمادے۔
کچھ لوگ ہیں جو غلط بولتے بھی ہیں اور غلط لکھتے بھی ہیں اور للکارتے حق گو اور حق نویس اہل علم کو اور جب وہ جماعت اہل حق بفحوائے ’’جواب جاہلاں خاموشی باشد‘‘کوئی جواب نہیں دیتے ہیں اور دراصل ایسے لوگوں کو اس لائق ہی نہیں سمجھتے کہ ان کی تحریر و تقریر کا جواب دیا جائے تو اسے ہزیمت تصور کربیٹھتے ہیں۔یہ عجیب جہالت،حماقت ،نادانی اور بد دماغی ہے۔ایسے فاتر العقل کو چاہئے کہ وہ اپنا علاج کروائیں اور اپنے فکری کینسر سے مذہبی حلقہ کو بچائیں۔
گدائے مرشد
ابوالعطر محمد عبدالسلام امجدی برکاتی عفی عنہ
متھلا بہاری نگرپالیکا ،تاراپٹی،دھنوشا،جنکپور(نیپال)
22؍ذوالقعدہ 1445 ھ
مطابق 1؍جون 2024ء بروز شنبہ