فضائل عشرئہ ذی الحجہ:
ابوالعطر محمد عبدالسلام امجدی برکاتی
متھلابہاری نگر پالیکا،تاراپٹی،دھنوشا(نیپال)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلامی کیلنڈر کا بارہواں اور آخری مہینہ ذی الحجہ شریف ہے۔ ذو الحجہ شریف اتنا محترم اور مکرم مہینہ ہے جو بے شمار فضائل و برکات اور یادگاروں سے لبریز ہے۔ یہ مہینہ حج کے مہینوں میں آخری مہینہ ہے۔اس مبارک و مقدس مہینے کی ہر ساعت رحمت و برکت اور نورو نکہت میں ڈوبی ہوئی ہے۔خصوصیت کے ساتھ پہلی تاریخ سے لیکر دسویں تاریخ تک کے جو دن ہیں ان کی فضیلت و عظمت کیا کہنے!ان دس رات اور دس دنوں کو عشرئہ ذی الحجہ کہتے ہیںان دنوں کی عظمت و رفعت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید کی سورہ فجر میں ان دس راتوں کی قسم یادفرمائی ہے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ(الفجر۱۔۲)یعنی قسم اس صبح کی اور دس راتوں کی ۔
حضرت جابر ، حضرت عبد اللہ بن عباس ، حضرت عبد اللہ بن زبیر ، حضرت قتادہ ، حضرت عکرمہ، حضرت مسروق ، حضرت مجاہد اور حضرت عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے فرمایا کہ دس راتوں سے مراد ذی الحجہ کی پہلی تاریخ سے لیکر دسویں تاریخ کی دس راتیں ہیں۔اَقْسَمَ بِھِنَّ لِفَضْلِھِنَّ عَلَیٰ سَائِرِ الْاَیَّامِ۔ اللہ تعالیٰ نے تمام دنوں پر ان دس راتوں اور دنوں کو فضیلت بخشی ہے اس لئے ان راتوں کی قسم کھائی ہے۔
(در منثور ص۴۰۰)
اس آیت کریمہ اور اس کی تفسیر سے معلوم ہوا کہ عشرئہ ذی الحجہ یعنی ذی الحجہ شریف کی پہلی دس راتیں اور دس دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت محبو ب اور پسندیدہ ہیں ، ان دنوں اور راتوں میں کی جانے والی نیکیاں عبادتیں ، ریاضتیں اللہ کو بہت پسند ہیں اور ان نیکیوں پر بے شمار اجر و ثواب عطا کیا جاتا ہے۔
حضرت سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
سَیِّدُ الشُّھُوْرِ شَھْرُ رَمْضَانَ وَ اَعْظَمُھَا حُرْمَۃً ذُو الْحِجَّۃِ۔(غنیۃ الطالبین ج۲ص۲۴)
ترجمہ: تمام مہینوں کا سردار رمضان المبارک کا مہینہ ہے اور سب مہینوں میں زیادہ عزت و عظمت والا ذی الحجہ کا مہینہ ہے۔
عشرئہ ذی الحجہ میں نیک اعمال اللہ عزوجل کو بہت پسند ہیں:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ مَا مِنْ اَیَّامِ اَلْعَمَلُ الصَّالِحُ فِیْھِنَّ اَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ مِنْ ھٰذِہِ الْاَیَّامِ الْعَشَرَۃِ قَالُوا وَلاَ الْجِھَادُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ قَالَ وَلَا الْجِھَادُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ اِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِہِ وَ مَالِہِ فَلَمْ یَرْجَعْ مِنْ ذٰلِکَ بِشَئْیٍ۔
(مشکوٰۃ ص۱۲۸،فتح الباری ج۲ص۴۵۷)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:ذی الحجہ کے دس دنوں کے سوا کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں نیکیاں اللہ کو زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہوں۔یعنی ذی الحجہ کے دس دنوں میں کی جانے والی نیکیاں تما م دنوں کے بہ نسبت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں۔صحابہ کرام نے عرض کی اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہادکرنا بھی نہیں؟حضور ﷺ نے فرمایا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ۔ مگر کوئی شخص اپنی جان و مال کا نذرانہ لے کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں نکلے اور پھر ان میں سے کچھ لیکر واپس نہ لوٹے تو اس جہاد کا ثواب بھی زیادہ ہے۔
اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا :اَفْضَلُ اَیَّامِ الدُّنْیَا اَیَّامُ الْعَشْرِ قِیْلَ وَلَا مِثْلُھُنَّ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ قَالَ وَلَا مِثْلُھُنَّ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ اِلاَّ رَجُلٌ عُفِرَ وَجْھُہُ فِی التُّرَابِ ۔(مجمع الزوائد ج۴ص۳)
ترجمہ: دنیا کے دنوں میں سب سے زیادہ فضیلت و عظمت والے دن ذی الحجہ کے دس دن ہیں ۔عرض کیا حضور !جہاد فی سبیل اللہ بھی ان دنوں کی طرح فضیلت والا نہیں ہے ؟ارشادفرمایا نہیں۔مگر اس شخص کا اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے کی نیکی جو اللہ کی راہ میں لڑتے لڑتے شہید ہو جائے۔
عبادت و روزے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَا مِنْ اَیَّامٍ اَحَبَّ اِلَی اللّٰہِ اَنْ یُّتَعَبَّدَ لَہُ فِیْھَا مِنْ عَشْرِ ذِی الْحِجَّۃِ یَعْدِلُ صِیَامُ کُلِّ یَوْمٍ مِنْھَا بِصِیَامِ سَنَۃٍ وَ قِیَامُ کُلِّ لَیْلَۃٍ مِنْھَا بِقِیَامِ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ۔
(مشکوٰۃ ص۱۲۸،شعب الایمان ج۳س۳۵۵)
ترجمہ:ذی الحجہ کے دس دنوں میں اللہ تعالیٰ کے لئے کی جانے والی عبادت وبندگی اللہ رب العزت کے نزدیک دوسرے تمام دنوں سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ ہیں۔ہر دن کے روزہ کا ثواب ایک سال کے روزے کے برابر دیا جاتا ہے اور ان دس راتوں میں سے صرف ایک رات کی عبادت کا ثواب شب قدر کی عبادت و بندگی کے برابر ہے۔
ایک روزے کا ثواب سال بھر کے برابر:
عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ اَنَّہُ قَالَ مَنْ صَامَ اَیَّامَ الْعَشْرِ کَتَبَ اللّٰہ لَہُ بِکُلِّ یَوْمٍ صَوْمُ سَنَۃٍ۔(غنیۃ الطالبین ج۲ص۲۵)
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جو ایام عشر کے روزہ رکھے تو اللہ تعالیٰ اسے ایک دن کے روزہ کے بدلے ایک سال کے روزے کا ثواب عطا فرمائے گا۔
چار چیزیں حضور ﷺ ترک نہیں فرماتے تھے:
اور خود حضور سرور کائنات ﷺ کا معمول تھاکہ جب عشرئہ ذی الحجہ آتا تو حضور روزہ رکھتے اور ان دنوں کا روزہ ترک نہیں فرماتے تھے۔چنانچہ
ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ:
اَرْبَعُ لَمْ یَکُنِ النَّبِیُّ ﷺ یَتْرُکُھُنَّ صَوْمُ عَشَرِ ذِی الْحِجَّۃِ وَ عَاشُورَائَ وَ ثَلَاثَۃَ اَیَّامٍ مِنْ کُلِّ شَھْرٍ وَرَکْعَتَانِ قَبْلَ الْغَدَاۃِ۔
(غنیۃ الطالبین ج۲ص۲۵،مشکوٰۃ شریف ص۱۸۰)
ترجمہ: چارچیزیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ترک نہیں فرماتے تھے۔(عشرئہ ذی الحجہ کے روزے (۲)عاشورہ یعنی دسویں محرم کا روزہ(۳)ہر مہینے کے تین روزے (یعنی ۱۳،۱۴،۱۵ تاریخ کے روزے)(۴)اور فجر کی فرض سے پہلے دو رکعت سنت۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہر ہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
مَنْ اَحْیَا لَیْلَۃً مِّنْ لَیَالِی عَشْرِ ذِی الْحِجَّۃِ فَکَاَنَّمَا عَبَدَ اللّٰہَ عِبَادَۃَ مَنْ حَجَّ وَ اعْتَمَرَ طُوْلَ سَنَتِہِ وَمَنْ صَامَ فِیْھَا یَوْمًا فَکَاَنَّمَا عَبَدَ اللّٰہَ سَائِرَ سَنَتِہِ۔
(غنیۃ الطالبین ج۲ص۲۵)
ترجمہ: جس نے ذی الحجہ کی دس راتوں میں سے ایک رات شب بیداری کی تو گویا اس نے پورے سال حج و عمرہ کرنے والے کی طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت کی۔ اور جس نے ایک دن روزہ رکھا گو یا اس نے پور ے سال اللہ عز وجل کی عبادت و بندگی کی۔
ایام عشر کی فضیلت کی وجہ:
ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں اور راتوں کو جو فضیلت و بزرگی حاصل ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ ان دس دنوں میں دو دن ایسے ہیں جن کی وجہ سے باقی آٹھ دنوں کو فضیلت و کمال اور عزت و کرامت ملی ہے۔او ر وہ دو دن عرفہ کادن یعنی نویں ذی الحجہ جس کو حج کا دن بھی کہا جاتا ہے اور دوسرا دن دسویں ذی الحجہ جس کو قربانی کا دن کہا جاتا ہے۔ان دو دنوں کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بڑی قدر و مقبولیت اور اہمیت و فضیلت ہے۔
حضرت عبد الرحمن بن زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ صَامَ یَوْمَ عَرَفَۃَ غَفَرَ اللّٰہُ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ وَ مَا تَاَخَّرَ لِسَنَۃٍ۔
(غنیہ الطالبین ج۲ص۳۷)
ترجمہ: جو عرفہ کے دن یعنی نویں ذی الحجہ کو روزہ رکھے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ایک سال اگلے اور پچھلے ایک سال کے گناہ بخش دے گا۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
صِیَامُ یَوْمِ عَرَفَۃَ کَفَّارَۃُ سَنَتَیْنِ سَنَۃٍ مَاضِیَۃٍوَ سَنَۃٍ مُسْتَقْبِلَۃٍ(ایضا)
عرفہ کے دن کا روزہ دوسال کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔گذرے ہوئے ایک سال اور آنے والے ایک سال کا۔
اور اما م المحققین علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ رد المحتار میں ایک بہت ہی پیاری حدیث نقل فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:
اَفْضَلُ الْاَیَّامِ یَوْمُ عَرَفَۃَ اِذَا وَافَقَ یَوْمَ جُمُعَۃٍ وَھُوَ اَفْضَلُ مِنْ سَبْعِیْنَ حَجَّۃً۔(رد المحتار علی الدر المختار ج۳ص۵۲۸مطبوعہ زکریا بکڈ پو)
ترجمہ:دنوں میں بہترین دن عرفہ کا دن ہے ، خصوصیت کے ساتھ جب اس دن جمعہ بھی پڑے ۔اور یہ ستر حج سے بھی بڑھ کر ہے۔
چار منتخب چیزیں:
حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے دنوں میں سے چاردنوں کو منتخب فرمالیا ہے۔
(۱)جمعہ کا دن:
فِیْھَا سَاعَۃٌ لَا یُوَافِقُھَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ یَسْاَلُ اللّٰہَ تَعَالَیٰ شَیْئًا مِّنْ اَمْرِ الدُّنْیَا وَالآْخِرَۃِ اِلاَّ اَعْطَاہُ اللّٰہُ اِیَّاہُ۔
یعنی جمعہ کے دن اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی ساعت اور گھڑی رکھی ہے کہ اس ساعت کو جو بندہ پالے اور اس میں اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے اللہ تعالیٰ اسے ضرور عطا فرماتا ہے۔
(۲)یوم عرفہ:
یعنی نویں ذی الحجہ کا دن جو مسلمانوں کے لئے حج کا دن ہے۔فَاِذَا کَانَ یَوْمُ عَرَفَۃَ یُبَاھِی اللّٰہُ تَعَالیٰ مَلاَئِکَتَہُ فَیَقُولُ یَا مَلَائِکَتِی اُنْظُرُوا اِلیٰ عِبَادِی جَاؤُا شُعَّثًا غُبَّرًا قَدْ اَنْفَقُو ا الْاَمْوَالَ وَ اَتْعَبُوا الْاَبْدَانَ اَشْھِدُوا اَنِّی قَدْ غَفَرْتُ لَھُمْ۔
یعنی عرفہ کے دن اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے اے میرے فرشتو!میرے بندوں کی طرف دیکھو کہ پر ا گندہ بال اور غبار آلودلباس میں میری بارگاہ میں آئے ہیں۔انہوں نے میری رضا کی خاطر مال و دولت خرچ کیا اور اپنے بدن کو مشقت میں ڈالا ۔اے فرشتو! گواہ ہو جاؤ میں نے ان کی مغفرت و بخشش فرمادی ہے۔
(۳)یوم نحریعنی قربانی کا دن:
فَاِذا کَانَ یَوْمُ النَّحْرِ وَ قَرَّبَ الْعَبْدُ قُرْبَانَہُ فَاَوَّلُ قَطْرَۃٍ قُطِرَتْ مِنَ الْقُرْبَانِ تَکُوْنُ کَفَّارَۃً لِّکُلِّ ذَنْبٍ عَمِلَہُ الْعَبْدُ۔
یعنی جب قربانی کا دن آتا ہے تو بندہ اپنی قربانی کے ذریعے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں قرب و نزدیکی حاصل کرتا ہے تو قربانی کے جانور کے خون کا پہلا قطرہ جو ٹپکتا ہے بندہ کے ہر گناہ کا کفارہ ہو جاتا ہے۔
(۴)یوم الفطریعنی عیدکا دن:
اللہ کے بندے رمضان بھر روزے رکھنے کے بعد جب عید کے لئے عیدگاہ کی طرف نکلتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے فرماتاہے:
اِنَّ کُلَّ عَامِلٍ یَطْلُبُ اَجْرَہُ وَ عِبَادِی صَامُوا شَھْرَھُمْ وَخَرَجُوا مِنْ عِیْدِھِمْ یَطْلُبُونَ اَجْرَھُمْ اُشْھِدُکُمْ اَنِّی قَدْ غَفَرْتُ لَھُمْ وَیُنَادِی الْمُنَادِی یَا اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ اِرْجَعُوافَقَدْ بُدِّلَتْ سَیِّئَاتُکُمْ حَسَنَاتٍ ۔
یعنی ہر مزدور اپنی مزدوری طلب کرتا ہے ، میرے بندوں نے مہینہ بھر روزے رکھے ، اب وہ اپنی مزدوری طلب کرنے کے لئے عیدگاہوں میں آئے ہیں۔تم گواہ ہوجاؤ کہ میں نے مغفرت و بخشش کی صورت میں انہیں ان کا اجر اور مزدوری عطا کردیا ہے۔پھر ایک منادی ندا دیتا ہے :اے امت محمد!ﷺ اب تم لوٹ جاؤ تمہاری برائیاں نیکیوں میں بدل دی گئی ہیں۔(تنبیہ الغافلین ص۱۹۰)
ایک جو ان کا واقعہ:
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ ایک نوجوان جو گانا گایا کرتا تھا اس کے بارے میں مشہور تھا کہ جب ذی الحجہ شریف کا چاند نظرا ٓتا تو وہ روزہ رکھنا شروع کردیتا ۔یہ بات حضور رحمت عالم ﷺ تک پہنچی۔ سرکار مدینہ ﷺ نے اس نوجوان کو بلایا آقا علیہ السلام کا حکم پاتے ہی وہ نوجوان خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا :مَا یَحْمِلُکَ عَلیٰ صِیَامِ ھٰذِہِ الْاَیَّامِ ؟اے نوجوان ! ان دنوں کے روزے رکھنے پر تمہیں کس بات نے ابھارا ؟تمہارے دل میں ان دنوں کے روزے رکھنے کا جذبہ کیسے پیدا ہوا؟اس نے عرض کی میرے ماں باپ حضور کے قدموں پر قربان ہوجائیں۔یارسول اللہ !یہ دن حج اور اس کے ارکان اد کئے جانے کے ہیں۔پوری دنیا سے مسلمان خانہ ء کعبہ کا حج کرنے کے لئے آتے ہیں ، اللہ کے گھر کا طواف کرتے ہیں ، صفا مروہ کے درمیا ن سعی کرتے ہیں، مزدلفہ میں ٹھہرتے ہیں ، عرفات میں نمازیں ادا کرتے ہیں ، مقام ابراہیم کے پاس دوگانہ پڑھتے ہیں، رمل کرتے ہیں ، جمرہ پر جاتے ہیں شیطان کو کنکری مارتے ہیں،منیٰ میں قربانی پیش کرتے ہیں، احرام باندھتے ہیں، حجر اسود کو چومتے ہیں ،حج کے ارکان ادا کرتے ہیں اور مقامات مقدسہ پر جاکر رب سے دعائیں مانگتے ہیںتو میں روزے اس لئے رکھتا ہوں کہ شاید حج کے ارکان ادا کرنے والے خوش نصیب بندگان خدااپنی دعاؤں میں مجھے بھی شریک کرلیں (اور مجھ پر بھی ان کی دعاؤں کے صدقے اللہ تعالیٰ اپنے رحم و کرم اور فضل ونعمت کی بارش نازل فرمائے اورر ہمارے گناہوں کے میل دھل جائیں بس اسی نیت سے ان دنوں کے روزے رکھتا ہوںیہ سن کر )نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
فَاِنَّ لَکَ بِکُلِّ یَوْمِ تَصُومُہُ عَدْلُ مِأَۃِ رَقْبَۃٍ وَ مِأَۃِ بُدْنَۃٍ وَمِأَۃِ فُرُسٍ تَحْمِلُ عَلَیْھَا فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ ۔فَاِذَا کَانَ یَومُ التَّرْوِیَّۃِ فَلَکَ فِیْھَا عَدْلُ اَلْفِ رَقْبَۃٍ وَ اَلْفِ بُدْنَۃٍ وَ اَلْفِ فُرُسٍ تَحْمِلُ عَلَیْھَا فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ ۔فَاِذَا کَانَ یَوْمُ عَرَفَۃَ فَلَکَ بِھَا عَدْلُ اَلْفَی رَقَبَۃٍ وَ اَلْفَی بُدْنَۃٍ وَاَلْفَی فُرُسٍ تَحْمِلُ عَلَیْھَا فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَھُوَ صِیَامُ سَنَتَیْنِ سَنَۃٍ قَبْلَھَا وَ سَنَۃٍ بَعْدَھَا۔
(تنبیہ الغافلین ص۱۸۸،غنیۃ الطالبین ج۲ص۲۴)
ترجمہ:تجھے ہر دن کے روزے کے بدلے سو غلام آزاد کرنے ، سو اونٹ قربانی کرنے اور سامان سے لدے ہوئے سو گھوڑے راہ خدامیں جہاد کرنے والوں کے لئے بھیجنے کا ثواب عطا کیا جائے گا۔جب ترویہ یعنی آٹھویں ذی الحجہ کا دن ہوگا تو اس دن کے روزے کا ثواب ایک ہزار غلام آزاد کرنے ، ایک ہزار اونٹ قربان کرنے اور ایک ہزار سامان سے لدے ہوئے گھوڑے راہ خدامیں جہاد کرنے والوں کو دینے کا ثواب لکھا جائے گا۔اور عرفہ یعنی نویں ذی الحجہ کے دن کے روزے کا ثواب دو ہزار غلام آزاد کرنے ،دو ہزار اونٹ قربان کرنے اور سامان سے لدے ہوئے دو ہزار گھوڑے اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے مجاہدوں کو دینے کے برابر ہے۔اور عرفہ کے دن کا روزہ اگلے پچھلے دو سال کے روزے کے برابر ہے۔
ابوالعطر محمد عبدالسلام امجدی برکاتی عفی عنہ