اعلیٰ حضرت اور نعتِ مصطفیٰ ﷺ

اعلیٰ حضرت اور نعتِ مصطفیٰ ﷺ

 پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مجددی

محبت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) میں عجب مسیحائی ہے—-دل دمکنے لگتے ہیں—-چہرے چمکنے لگتے ہیں—-کردار سنورنے لگتے ہیں—- مردہ ،زندہ ہونے لگتے ہیں—-ویرانے آباد ہونے لگتے ہیں—-جہاں بدلنے لگتے ہیں—-محبت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ایک سرور ہے—-یہ سرُورہی زندگی ہے—-تنائو کھنچائو سے نجات مل جانا بڑی دولت ہے—-یہ سرور شکنجوں میں کسے ہوئے انسانوں کو آزاد کرتا ہے—- یہ سرور پریشاں خیالیوں کا علاج ہے—-گیتوں اور نغموں میںبھی سرور ہے—-مگر آنی جانی ہے—- محبت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا سرور ہی کچھ اور ہے—- نعت ،محبت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بہار ہے—- نعت سرور سرمدی کا خزانہ ہے—- ’’بہترین تخلیقات وہی ہیں جو روحانی سرور اور بصیرت کا ذریعہ ہوں۔‘‘

محبت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) احساس میں شدت اور جذبے میں گہرائی پیداکرتی ہے—-دل مچلنے لگتا ہے—- ذہن سنبھلنے لگتا ہے—-زبان گنگنانے لگتی ہے—-خود بخود اشعار ڈھلنے لگتے ہیں—- رضا بریلوی ،شاعروں کی طرح سوچتے نہ تھے—- وہ تلمیذ رحمن تھے—- فکرو خیال کی وادیوں میں غلطاں و پیچاں نہ رہتے تھے—-جب جذبات کی گھٹائیں اٹھنے لگتیں—- جب فکر وخیال کے بادل برسنے لگتے—- شعر ابلنے لگتے—- جھرنے چلنے لگتے—- قرطاس و قلم کا نصیبہ جاگ اٹھتا —-ان کی روح بولتی چلی جاتی—-ان کا قلم لکھتا چلا جاتا—-’’ شاعری جب ہا تف غیبی کی ترجما ن ہوجائے تو اپنی بلندیوں کو چھونے لگتی ہے۔‘‘

نعت جذبات و احساسات کو متوازن رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے —-انسان کی طبعی و حشت کو طمانیت وسکون سے بدل دیتی ہے—-فکر وخیال میں یک سوئی اور یک رنگی پیدا کرتی ہے—- محبت کرنے والے میں جب جمالِ محبوب منعکس ہوتا ہے تو اس کے قول و عمل اور فکر وخیال میں محبوب کے جلوے نظر آنے لگتے ہیں—-جتنا قریب ہوتا جاتا ہے—-اتنا ہی محبوب کے رنگ میں رنگتا جاتا ہے —-یہاں تک کہ خود محبوب بن جاتا ہے—-رضاؔ بریلوی نے اپنی نعتیہ شاعری میں اس جانِ جاں، جان ِ ایماں صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سمو کررکھ دی—-دیوان کیا ہے، حریم ناز کے پردے اٹھے ہوئے ہیں—-جمال محبوب ، ادائے محبوب ،کلام محبوب ، خرام محبوب ،عطائے محبوب ،رضائے محبوب ، وفائے محبوب —- جدھر دیکھئے ،محبوب ہی محبوب—- جدھردیکھئے نورہی نور—-سبحان اللہ ، سبحان اللہ!

دل نور ،جگر نور، زباں نور، نظر نور
یہ کیا ہے مری خاطر ناشاد کا عالم !

ٍ رضاؔ بریلوی جب اپنے محبوب دل آراء کی محبت میں ڈوبتے ہیں اوراس کے حسن ِ دل افروز کو شعروں میں ڈھالتے ہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے جیسے دل مچل رہے ہوں—- جیسے آنکھیں برس رہی ہوں—-جیسے سینے پھُک رہے ہوں—- جیسے چشمے ابل رہے ہوں—- جیسے فوارے چل رہے ہوں—-جیسے گھٹائیں چھارہی ہوں… جیسے پھوار پڑرہی ہو—-جیسے مینہ برس رہا ہو—-جیسے جھرنے چل رہے ہوں—-جیسے دریا بہہ رہے ہوں—- جیسے صباچل رہی ہو—-جیسے پھول کھل رہے ہوں—- جیسے خوشبو مہک رہی ہو—-جیسے تارے چمک رہے ہوں—- جیسے کہکشاں دمک رہی ہو—-جیسے آفاق پھیل رہے ہوں—- جیسے دنیا سمٹ رہی ہو—- جیسے زمیں سے اٹھ رہے ہوں—- جیسے فضائوں میں بلند ہورہے ہوں—- جیسے آسمانوں میں پھیل رہے ہوں—- جیسے دروازے کھل رہے ہوں—- جیسے ایک نئے جہاں میں جھانک رہے ہوں—-جیسے قدسیوں سے باتیں کررہے ہوں—- جیسے حوروں سے سرگوشیاں کررہے ہوں—- جیسے باغ بہشت کی سیر کررہے ہوں—- جیسے کوثر و تسنیم سے سیراب ہورہے ہوں—- جیسے سینوںمیں وسعت کونین سما ر ہی ہو—-جیسے جلوئہ یار کو آمنے سامنے دیکھ رہے ہوں—- جیسے وہ آرہے ہوں—- جیسے وہ جارہے ہوں—-جیسے وہ ہنس رہے ہوں—- جیسے وہ رور ہے ہوں—-جیسے وہ بول رہے ہوں—- جیسے وہ مسکرامسکرا کر دل کی کلیاں کھلارہے ہوں—- جیسے ہم ان کودیکھ دیکھ کرمررہے ہوں، جی رہے ہوں—- جیسے ان کے نور کی خیرات لوٹ رہے ہوں—-جیسے ان کے کرم کی بہاریں دیکھ رہے ہوں—- رضاؔ بریلوی کے نعتیہ نغموں کی کیا بات!—- ایک ایک حروف چمک رہا ہے—- ایک ایک لفظ دمک رہا ہے—- ایک ایک مصرع چہک رہا ہے—-ایک ایک شعر میں جہان معنی آباد ہیں۔

جدید تحقیق کے مطابق رضا ؔبریلوی ۷۵ سے زیادہ علوم و فنون میں مہارت رکھتے تھے ،تقریباً پندرہ علوم وفنون کا تعلق براہِ راست شعر و ادب سے ہے—-بلکہ ان کے شعری اور نثری ادب میں ان کے ہر علم وفن کی جھلک نظر آتی ہے—-ویسے ادب کا دامن بہت وسیع ہے —- شایداتنا وسیع کسی علم و فن کا دامن نہ ہوگا—- جس علم پر اس کی تجلی پڑتی ہے،اس کا ہوجاتا ہے—- ادب ایک ایسا عطرمجموعہ ہے جس کی خوشبو سے مثام جاں معطر ہوتا ہے—- الفاظ وحروف ،اس کا جسم ہیں اور جذبہ اس کی روح—-روح اس کی بستی ہے—-دل اس کا گھر ہے—-دماغ اس کی سواری ہے—-آنکھیں اس کی خادم ہیں—- قلم اس کا چوبدار ہے—-

مطالعہ ومشاہد ہ جتنا وسیع ہوتا جاتا ہے—-ذہنی افق اتناہی پھیلتا جاتا ہے—- پھر مطالعہ و مشاہدہ کا ایک جہاں نہیں ،بیسیوں جہاں ہیں—- خارجی بھی داخلی بھی—- ہماری دنیا صرف یہ جہاں ہے —-مگر دید ہ ور کی نظر میں ہرجا جہانِ دیگر ہے—- رضاؔ بریلوی کا مطالعہ اور مشاہدہ بڑا وسیع تھا، اس لیے ان کا ذہنی افق وسعتوںکواپنے آغوش میں لیے ہوئے ہے—- ہم ان وسعتوں میں پرواز کرتے ہیں مگرپا نہیں سکتے—-اس کی حدود کو چھو نہیں سکتے—-ان وسعتوں کے باہر جاناتوبہت دور کی بات ہے—-فکر وفن کے بھی سماوات ہیں —- ان کی پہنائیوں کو وہی پاسکتے ہیں جو اداشناس ادب ہوں۔

رضاؔ بریلوی کی شاعرانہ خوبیوں کی کیابات کی جائے—- کون سی خوبی ہے جو یہاں نہیں—- ان کی شاعری پیکر حسن و جمال ہے—-سبحان اللہ سبحان اللہ!—- معانی و بیان کی دل آویزیاں—- صنائع وبدائع کی جلوہ ریزیاں—- تشبیہات و استعارات کی سحر انگیزیاں—-الفاظ وحروف کی حیرت انگیز صف بندیاں—- محاوروں کا حسین امتزاج—- روزمرہ کا دل آویز استعمال—-طرز ادا کی رنگینی و بانکپن—- سادگی و پرکاری—- ندرت فکرو خیال—- بے ساختگی و بر جستگی—- موسیقیت و نغمگی—-رفعت مضامین—-نکھرے ستھرے پاکیزہ اشعار—- سراپا انتخاب—- فکر وخیال کو جس سانچے میں ڈھالتے ہیں حسیں سے حسیں نظر آتاہے —-غزل کو اتنا بلند کیا کہ نعت بنادیا اور نغمۂ نعمت کو اس بلند آہنگی سے چھیڑا کہ زمین و آسمان گونجنے لگے۔

٭٭٭

Spread the love

Check Also

سنی اور وہابی کا فرق

SUNNI AUR WAHABI KA FARQ Spread the love

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

واٹس ایپ پیغام بھیجیں۔