حضور فقیہ ملت اور حضو جیش ملت کے مابین علمی گفتگو

حضور فقیہ ملت اور حضو جیش ملت کے مابین علمی گفتگو بذریعہ مراسلات
ابوالعطر محمد عبدالسلام امجدی برکاتی
متھلا بہاری نگر پالیکا،تاراپٹی مشرقی محلہ،دھنوشا(نیپال)
حضو شیرنیپال علیہ الرحمہ اپنے بزرگوں کا بہت ہی ادب و احترام کرتے تھے اور ان سے کوئی علمی گفتگو بھی فرماتے تو ادب و احترام کا خوب خیال رکھتے۔اس کی ایک جھلک در ج ذیل خطوط میں ملاحظہ کرسکتے ہیں ،جن میں آپ کے اور فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ کے مابین بیع سلم کے مسئلہ میں بذریعہ خط و کتابت علمی گفتگو ہوئی ہے۔ان مکتوبات کے مطالعہ سے بلاشبہ قارئین کے علم میں خوبصورت اضافہ ہوگا۔
مکتوب حضور جیش ملت بنام حضور فقیہ ملت
محترم المقام لائق صد احترام ،حضرت مفتی صاحب قبلہ!
السلام علیکم۔
محترم المقام لائق صداحترام حضرت مفتی صاحب قبلہ السلام علیکم ! عرض یہ ہے کہ ایک شبہ کا ازالہ فرما دیں کرم ہوگا ۔ وہ یہ کہ بہارشریعت حصہ یازدہم ص۱۷۵ پر بیع سلم کے سلسلہ میں مرقوم ہے کہ مسلم فیہ وقت عقد سے ختم میعاد تک برابر دستیاب ہوتا رہے الخ۔ اور ص ۱۷۷ پر ہے کہ نئے گیہوں میں سلم کی اور ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے ہیں یہ ناجائز ہے۔ یہی اردو عالمگیر ی ص ۱۱ میں لکھا ہے ، قانون شریعت میں بھی یہی تحریر ہے اور ہدایہ جلد دوم باب سلم میں جو حدیث شریف مروی ہے نیز صاحب ہدایہ کی تعلیل سے معلوم ہوتا ہے کہ بیع سلم اس نئے دھان میں جائز نہ ہونا چاہئے جو ابھی موجود نہ ہوئے ہیں ۔ قدوری وغیرہ میں بیع سلم کے جواز سے متعلق جو شرائط مذکور ہیں ان سے یہی پتہ چلتا ہے کہ ہمارے اطراف میں اگہن آنے سے ایک دوماہ قبل نئے دھان پر روپیہ دیتے ہیں وہ جائز نہ ہو۔ کیونکہ مسلم فیہ وقت عقد موجود نہیں ہے ، نہ بازار میں نہ گھر میں۔ بلکہ کھیت میں پودا کی صور ت میں ہے ۔ اور بہار شریعت نیز عالمگیری ، ہدایہ ، قدوری وغیرہ کی عبارت سے ظاہر ہے کہ جائز نہ ہو ۔ اور آپ نے اپنی کتا ب انوار الحدیث میں یہ عبارت تحریر فرمائی ہے’’ مثلا زید نے فصل تیار ہونے سے پہلے بکر سے کہا کہ آپ سو روپے ہمیں دیجئے الخ‘‘ ۔ بخاری اور مسلم کی جن حدیثوں کو آپ نے پیش کیا ہے ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بیع سلم نئے دھان اور نئے گیہوں وغیرہ میں جو ابھی پیدا نہ ہوئے ہیں جن کی فصل تیا ر نہ ہوئی ہے جائز ہے لہٰذا رفع اشکال کی کیا صورت ہوگی تحریر فرمائیں۔
جواب مکتوب بنام حضور جیش ملت ا ز قلم حضور فقیہ ملت:
حضرت مولانا المحترم زید احتر امکم، وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بیشک بیع سلم کی صحت کے شرائط میں سے ہے کہ مسلم فیہ وقت عقد سے ختم میعاد تک برابر دستیاب ہوتا رہے اس لئے کہ پوری میعاد میں مسلم فیہ کے تسلیم پر بائع کا قادر ہونا ضروری ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ پیدا ہونے سے پہلے نئے گیہوں اور دھان میں بیع نا جائز ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ گیہوں یا دھان جب تک کہ قابل انتفاع نہ ہوں ان کی بیع سلم جائز نہیں اور جب قابل انتفاع ہو گئے تو جائز ہے، اگر چہ وہ ابھی کھیت سے نہ کاٹے گئے ہوں ۔اس لئے کہ بائع مسلم فیہ کے تسلیم پر قادر ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لا تسلفوا في الثمار حتى يبدو صلاحها ۔ یعنی پھلوں کی درستگی ظاہر ہونے سے پہلے ان کی بیع سلم مت کرو۔ ثابت ہوا کہ جب پھلوں کی درستگی ظاہر ہو جائے یعنی وہ قابل انتفاع ہو جائیں تو ان کی بیع سلم جائز ہے، مگر شرط یہ ہے کہ اس حالت میں ہلاک نادر ہو۔ لان النادر کالمعدوم اور اگر قابل انتفاع ہونے کے بعد بھی اکثر ہلاک ہو جاتا ہو جیسے کہ بعض نشیبی علاقوں میں دھان وغیرہ سیلاب سے اکثر ہلاک ہو جاتے ہیں ،تو اگر اس صورت میں بازاروں میں دھان نہ ملتے ہوں تو جب تک کھیت سے کاٹ کر محفوظ نہ کرلئے جائیں ان کی بیع سلم نا جائز ہے۔ لان الغالب في احكام الشرع كالمتيقن ۔ لہٰذا آپ کے اطراف میں اگر قابل انتفاع ہونے سے پہلے نئےدھان کی بیع سلم کرتے ہیں اور اس وقت نئے دھان بازاروں میں نہیں پائے جاتے تو اس طرح بیع سلم کرنا نا جائز ہے ،اس لئے کہ اس صورت میں بائع نئے دھان کے تسلیم کرنے پر قادر نہیں ۔ ہاں اگر نئے دھان کی قید نہ ہو بلکہ متعاقدین میں یہ طے ہو کہ بائع دھان دے گا خواہ نیادے یا پرانا، مشتری کو اعتراض نہ ہوگا تو اس صورت میں اگہن سے ایک دو ماہ پہلے دھان کی بیع سلم جائز ہے ۔بشرطیکہ دھان اس علاقہ کے بازاروں میں اس وقت مل سکتا ہو:
لان البائع قادر على تسليم المسلم فيه اور انوار الحدیث میں جو لکھا ہے کہ زید نے فصل تیار ہونے سے پہلے الخ ۔تو اسے مراد یہ ہے کہ قابل انتفاع ہونے کے بعد اور کٹنے سےپہلےالخ۔ اور بخاری ومسلم کی جو حدیث شریف کتاب میں لکھی ہے اگر چہ بظاہر اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ جو چیز بھی پیدا نہ ہوئی تواس کی بیع سلم جائز ہے مگر دوسری حدیثوں میں پیدا ہونے سے پہلے بیع سلم کرنے کو صراحتہ منع کیا گیا ہے جیسا کہ وہ حدیث جواوپر مذکور ہوئی اور بخاری شریف میں ہے: عن البختری قال سألت ابن عمر عن السلم في النحل قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع النخل حتى يصلح وسألت ابن عباس رضي الله عنهما عن السلم في النخل فقال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع النخل حتى يوكل منه ۔ اور ابو داود وابن ماجہ میں ہے: عن ابي اسحاق عن رجل نجراني قلت لعبد الله بن عمر اسلم في نخل قبل ان تطلع قال لا. وهو تعالى اعلم۔ورسوله الاعلى اعلم.
كتبه: جلال الدین احمد الامجدی۱۸ ربیع النور ا ۱۴۰؁ھ
دوسرا مکتوب جیش ملت بنام حضور فقیہ ملت:
فیض مآب حضرت علامہ مفتی دارالعلوم فیض الرسول براؤں شریف دامت فیوضکم العالیہ !
السلام علیکم ورحمۃ اللہ تعالیٰ!
حضرت کا فتویٰ مع نامہ ایک ہفتہ قبل تشریف لاکر نظر نواز ہوا ، ذرہ نوزی کا بہت بہت شکریہ۔ مطالعہ کے بعد ایک شبہ کا ازالہ ہوا اور ایک کا اضافہ ۔ وہ یوں کہ اگر کھیت کی قابل انتفاع شئی کو ( جو ابھی بازار میں نہیں ملتی ہے ) بازار میں موجود ہونے کا حکم دیاجائے جیسا کہ حضرت کے فتویٰ سے مفہوم ہوتا ہے، تو جو شئی گھر میں موجود ہے اور بازار میں نہیں ملتی اسے بدرجئہ اولیٰ بازار میں موجود ہونے کا حکم دیاجاسکتا ہے کہ مقدور التسلیم ہے ۔ حالانکہ بہار شریعت حصہ یازدہم ص۱۷۵ پر موجود ہونے کا یہ معنی بیان فرمایا ہے کہ بازار میں ملتا ہو اور اگر بازار میں نہ ملتا ہو اور گھروں میں ملتا ہو تو موجود ہونا نہ کہیں گے ۔ تو فتویٰ اور بہار شریعت کی اس عبارت میں ٹکراؤ مفہوم ہوتا ہے اندفاع کی صورت تحریر فرمائیں۔
الجواب: مولانا المکرم وعليکم السلام ورحمۃ الله وبرکاتہ
کھیت کی قابل انتفاع شی کو بازار میں موجود ہونے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ جب وہ قابل انتفاع ہے تو بائع اس کی تسلیم پر قادر ہے اور بہار شریعت کی عبارت کہ بازاروں میں نہ ملنے اور گھروں میں پائے جانے کا معنیٰ یہ ہے کہ وہ فروخت نہ ہوتی ہو اور بازاروں میں ملنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ فروخت ہوتی ہو۔ لہٰذا گھروں میں جوشی موجود ہے اگر فروخت ہوتی ہے تو بیشک اسے بھی بازاروں میں ملنا کہیں گے۔ اس لئے کہ وہ مقد ور التسلیم ہے اور اگر بازاروں میں ہے مگر فروخت نہیں ہوتی تو اسے بازاروں میں ملنا نہ کہیں گے ،اس لئے کہ بائع اس کی تسلیم پر قادر نہیں۔ اصل یہ ہے کہ بیع سلم کے صحیح ہونے کی ایک شرط قدرت علی التحصیل ہے جیسا کہ ہدایہ باب السلم جلد ثالث ص81میں ہے: اور قدرت علی التحصیل سے مراد عدم انقطاع ہے جیسا کہ فتح القدیر جلد سادس ص ۲۲۹ میں ہے:
اما القدرة على تحصيله فالظاهر ان المراد منه عدم الانقطاع ۔
لہٰذا جب مسلم فیہ کھیت، بازار یا گھر کہیں سے حاصل ہو سکے تو عدم انقطاع کی شرط پائی گئی بیع سلم صحیح ہے اور اگر کہیں سے نہ مل سکے تو صحیح نہیں۔
وھو تعالیٰ اعلم
كتبه: جلال الدین احمد الامجدی ۲ جمادی الاخری ۱۴۰۱
(معارف حضور شیرنیپال)

Spread the love

Check Also

FATAWA BARKAT-1

فتاویٰ برکات اول Spread the love

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے